You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ذات حسن و حسین ہے عین شبیہہ مصطفی
ذات ہے اک نبی کی ذات ہیں یہ اسی کے نام دو
امام عالی مقام امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہما کی شان و عظمت بہت بلند و بالا ہے ، اتنی بلند و بالا کے ہماری سوچ اس شان رفعت مقام کی بلندیوں کو چھو بھی نہیں سکتی ۔
یہ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ؛
-----------------------------------------------------------
بےشک حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (مشکوۃ شریف)
-----------------------------------------------------------
یہ وہ شان والے ہیں کہ جن پر حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا بیٹا قربان فرما دیا ۔
-----------------------------------------------------------
یہ وہ عظمت والے ہیں کے جن کے بارے میں حضور سید عالم جان رحمت صلی الہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
-----------------------------------------------------------
حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہماجنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
(سنن الترمذی)
-----------------------------------------------------------
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے
(مشکوۃ شریف)
-----------------------------------------------------------
امام حسن رضی اللہ عنہ کی عظمت ظاہر کرتے ہوےسرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
-----------------------------------------------------------
یارب! عزوجل میں اس کو محبوب رکھتا ہوں تو تُو بھی محبوب رکھ۔
(صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب الحسن والحسین)
-----------------------------------------------------------
یہ وہ ہیں اللہ کے محبوب جن کی شان یوں بلند فرماتے ہیں:
-----------------------------------------------------------
جس نے ان دونوں (حضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔
------------------------------------------------
حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما یہ دونوں شہزادے مظہر جمال مصطفی بھی تھے اور مظہر کمال مصطفی بھی تھے۔
مظہر جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دونوں شہزادے کیسے تھے ؟ ۔۔۔۔ حضرت مولا علی مولاۓ کائنات شیر خدا مشکل کشاء امام حسن اور امام حسین کے حسن و جمال کی تصویر کشی کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ ؛
-----------------------------------------------------------
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر نیچے تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ ہیں۔
(ترمذی شریف)
-----------------------------------------------------------
اعلی حضرت نے بڑے خوبصورت انداز میں اور عشق سے بھر پور لہجے میں اس حدیث کو اپنے اشعار میں بیان کیا کہ
----------------------------------------
ایک سینہ تک مشابہ اک وہاں سے پاؤں تک
حسن سبطین ان کے جاموں میں ہے نیما نور کا
صاف شکل پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
خط توام میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا
-------------------------------------
ان دونوں شہزادوں کو اپنے نانا حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جمال کا بھی فیض ملا اور کمال کا بھی۔
تو جس طرح یہ دونوں شہزادے مظہر جمال مصطفی تھے اسی طرح مظہر کمال مصطفی بھی تھے۔ یعنی جس طرح اوپر حدیث میں بیان ہوا کہ ان دونوں میں جمال مصطفی تقسیم ہوا اسی طرح کمال مصطفی بھی تقسیم ہوا۔
یوں تو کمالات جو ان شہزادوں کے حصے آۓ وہ گنتی و شمار میں نہیں آ سکتے مگر میں یہاں ایک کمال کمال شہادت کو بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔
چنانچہ بڑے شہزادے امام حسن رضی اللہ عنہ کو شہادت سری کا فیض ملا اور چھوٹے شہزادے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہادت جہری کا۔
-----------------------------------------------------------
سب سے پہلے یا جاننا ہوگا کہ
شہادت جہری اور شہادت سری کیا ہیں؟
اور یہ دونوں کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع ہیں؟
اور کس طرح یہ امام حسن و حسین میں جا کر ظاہر ہوتی ہیں؟
شہادت کی دو اقسام ہیں:
1۔ شہادت جہری (یعنی اعلانیہ شہادت)
2- شہادت سری (یعنی پوشیدہ شہادت)
------------------------------------
1۔ شہادت جہری :
شہادت جہری یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ کی راہ میں اعلاء کلمۃاللہ کیلیۓ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں سے لڑتا ہوا اور طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کرتا ہوا اعلانیہ جان دے دے یا مظلومانہ طور پر قتل ہو جاۓ۔
2-شہادت سری :
شہادت سری یہ ہے کہ کسی کے زہر دینے سے یا طاعون کی وبا سے یا اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جاۓ مثلا کوئی عمارت گر جاۓ اور یہ نیچے آکر دب جاۓ یا کہیں آگ لگ جاۓ اور یہ جل جاۓ ، یا تیرتا ہوا یا نہاتا ہوا ، یا سیلاب کی وجہ سے ڈوب جاۓ ، یا طلب علم دین یا سفر حج ، یا پیٹ اور سل اور دق کے مرض میں انتقال کر جاۓ اور عورت حالت نفاس میں مر جاۓ۔
----------------------
تفسیر کبیر میں امام احمد رازی علیہ رحمۃ فرماتے ہیں :
شہید وہ شخص ہے جو اللہ کے دین کی صحت و صداقت کی کبھی تو دلیل و برھان اور قوت بیان سے اور کبھی شمشیر و سنان سے شہادت دے اور اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو بھی اسی مناسبت سے شہید کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان قربان کر کے اللہ کے دین کی حقانیت کی شہادت دیتا ہے ۔
-----------------------------------
شہادت جہری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک:
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کے معنی کے مطابق تسلیم کرنا پڑے گا کہ شہادت کا انعام و کمال حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ میں بدرجۂ اتم موجود تھا ۔اس لیۓ کہ اللہ تعالی کے دین کی حقانیت کی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شمار دلائل و براھین اور روشن بیانات و معجزات کے ساتھ شہادت دی ہے اور کسی نے نہیں دی ۔۔۔۔۔۔ کون نہيں جانتا کہ اسی دین حق کی شہادت کے سلسلے میں ہی آپ نے مکہ مکرمہ میں مسلسل تیرہ سال تک ناقابل برداشت اذیتیں برداشت کیں ۔ ۔۔۔۔ گلیوں ، بازاروں ،اور طائف کے میدان میں پتھر کھاۓ اور نہایت نازیبا قسم کے کلمات سنے ۔۔۔۔۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس قدر میں اللہ تعالی کی راہ میں ستایا گیا ہوں کوئی پیغمبر نہیں ستایا گیا۔ یہاں تک کے وطن اور گھر بار چھوڑ دیا ۔مدینہ منورہ میں آکر بہت سی جنگوں میں بنفس نفیس شرکت فرما کر شمشیر و سنان کے ساتھ بھی گواہی دی ۔ دندان مبارک شہید ہوا زخمی بھی ہوے ۔ فرق رہ گیا روح اقدس کے نکلنے کا اور وہ میدان جنگ میں اس لیے نہيں نکلی کہ
اللہ تعالی نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا:
----------------------------------------
وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
اور اللہ آپ کی جن لوگوں سے بچاۓ گا
تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ" سفروں میں شب کو حضور اقدس سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دیا جاتا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی پہرہ ہٹا دیا گیا اور حضورنے پہرہ داروں سے فرمایا کہ تم لوگ چلے جاؤ ، اللہ تعالٰی نے میری حفاظت فرمائی ۔
-------------------------------
اس لیے کو ئی کافر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ ثابت ہوا کہ شہادت جہری کی حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر بدرجہ اتم پوری ہوئی۔
---------------------------------------------------------------------
شہادت سری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ:
غزوہ خیبر میں ایک یہودیہ عورت زینب بنت الحارث نے بکری کا بھنا ہوا ذہر آلود گوشت حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیۃ بھیجا۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے کچھ کھا لیا۔۔۔۔ تو اس بھنے ہوے گوشت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی کہ میں زہر آلود ہوں۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت ہاتھ اٹھا لیا۔۔۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آپ کے صحابی حضرت بشر بن براء نے بھی کھایا تھا۔۔۔۔۔جو اسی وقت اس کے اثر سے شہید ہو گۓ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس یہودیہ کو بلا کر پوچھا کہ تجھے اس حرکت پر کس چیز نے اکسایا؟
اس نے کہا:
میں نے چاہا کہ معلوم کروں کہ (آپ نبی ہیں یا بادشاہ) اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہوں گے تو آپ کو نقصان نہیں پہنچاۓ گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بادشاہ ہوں گے تو میں لوگوں کو آپ سے راحت و آرام دلا دوں گی !
(طبقات ابن سعد ،ج1 ،ص172)
علامہ زرقانی فرماتے ہیں:
اور بے شک یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت کی وفات پائی اس لیۓ کہ آپ نے خیبر کے دن ایسی زہر ملائی ہوئی بکری کے گوشت میں سے کھایا جس کا زہر ایسا قاتل تھا کہ اسی وقت موت واقع ہو جاۓ چنانچہ اس زہر کے اثر سے بشر بن براء بن معرور اسی وقت فوت ہو گۓ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باقی رہنا معجزہ ہو گیا وہ زہر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اکثر تکلیف دیتا تھا یہاں تک کے اسی کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی۔
(زرقانی علی المواھب، ج، ص313)
علامہ جلاالدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
امام بخاری اور امام بیہقی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرماتے تھے کہ میں نے خیبر میں جو زہر آلود گوشت کھایا تھا اس کی تکلیف ہمیشہ محسوس کرتا رہتا ہوں تو اب وہ وقت آ پہنچا کہ اسی زہر کے اثر سے میری رگ جان منقطع ہو۔
(انباء الاذکیا بحیاۃ الانبیاء، ص 149)
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح شہادت جہری کی حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر پوری ہوئی تھی اسی طرح" شہادت سری" کی حقیقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پوری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زہر دیا گیامگر اس کے اثر سے فی الفور آپ کی وفات واقع نہ ہوئی اسلیۓ یہاں بھی وعدہ خداوندی وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اس کے لیے مانع ہوا اور زہر کا آپ پر اثر انداز نہ ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہو گیا۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ دونوں شہادتوں(شہادت جہری اور شہادت سری) کی حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر پوری ہوئی۔ تو اب دیکھیے ان دونوں شہادتوں کا ظہور حضرات حسنین کریمین میں کیسے ہوا۔
امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت سری ؟
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت اس طرح ہوئی کہ آپ کو زہر دیا گیا جس سے آپ رضی اللہ عنہ شہید ہو گۓ۔اور حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہادت سری کا کمال امام حسن رضی اللہ عنہ میں آیا۔
چونکہ بڑے شاہزادے امام حسن رضی اللہ عنہ کے حصہ میں "شہادت سری" آئي اور "سر " خفا و پوشیدگی کو کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کو پوشیدہ رکھا اور کسی کو اس کی اطلاع نہ دی یہاں تک کہ خود حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے بھی زہر دینے والے کا نام نہ بتلایا اور فرمایا کہ میں اس کا بدلہ خداتعالی پر چھوڑتا ہوں وہ منتقم حقیقی ہے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت جہری
حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہادت جہری کا کمال حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میں ظاہر ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے دین کی سر بلندی میں حفاظت دین کے لیے کربلا کے تپتے صحرا میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے حصے میں شہادت جہری آئی تھی اور جہر کہتے ہیں اعلان و اظہار کرنے کو ۔ یہی وجہ ہے کہ سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا اعلان عام فرما دیاتھا ،
-----------------------------------------------------------
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مجھ کو جبریل امین نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ عنہ میرے بعد زمین طف میں قتل کر دیا جاۓ گا اور جبریل میرے پاس اس زمین کی یہ مٹی لاۓ ہیں اور انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہی ان کے لیٹنے کی جگہ ہے۔
(صواعقہ محرکہ، ص 190 ، خصائص کبری ،ج2 ، ص125)
-----------------------------------------------------------
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حسن و حسین دونوں میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے۔کہ جبریل امین نازل ہوے اور کہا:
-----------------------------------------------------------
اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بے شک آپ کی امت آپ کےاس بیٹے حسین کو آپ کے بعد قتل کر دے گی اور آپ کو (وہاں کی تھوڑی سی) مٹی دی۔ آپ نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا اس میں رنج و بلا کی بو ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے مبارکہ سے چمٹا لیا اور روۓ۔ پھر فرمایا اے ام سلمہ! جب یہ مٹی خون ہو جاۓ تو جان لیجئو کہ میرا یہ بیٹا فتل ہو گیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس مٹی کو بوتل میڑ رکھ دیا تھا اوراور وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں جس دن یہ مٹی سرخ ہو جاۓ گی وہ عظیم دن ہو گا۔
(صواعق محرکہ، ج2 ،ص347 ، خصائص کبری ج2، ص125)
-----------------------------------------------------------
ان روایات سے ثابت ہوا کہ حصور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین کی شہادت کا اعلان و اظہار فرما دیا تھا اور بہت سے صحابہ و اہلبیت کو معلوم تھا کہ حسین شہید ہوں گے اور ان کی شہادت گاہ کربلہ ہے۔
=================================
=========================================
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.