You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
عالمی صحافت پر یہودیوں کے تسلط کا منصوبہ کو ئی نیا نہیں ہے ۔ ان کے اعلی دماغ منصوبہ سازوں نے ایک صدی قبل ہی جب کہ اقوام عالم یہودی سازشوں سے بے خبر اپنے سرحدوں کے داخلی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھے ، دنیا پر بلا اشتراک حکومت کا منصوبہ تیار کیا اور اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے غیر یہودیوں سے جنگ کے لیے میڈیا کو " مقدمۃ الجیش" کے طور پر استعمال کرنے کا پلان بنایا۔۔۔۔۔۔ عالم انسانیت پر سیادت(سرداری) کے لیے 1897ء میں سوئزر لینڈ کے شہر "بال" میں ان کے 300 دانشوروں اور مفکروں پر مشتمل ایک اجتماع ہوا۔اس میں انہوں نے منصوبے بناۓ اور ترجیحات متعین کیں ۔ یہ منصوبہ 19 پروٹوکولز کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے آ چکا ہے ۔ اس اجتماع میں پوری دنیا میں پھیلی 30 یہودی تنظیموں کے اعلی دماغ کارکنوں نے شرکت کی جہاں انہوں نے تمام اقوام عالم پر حکومت کے لیے دو چیزوں کو بنیادی حیثیت قرار دیا۔
1. دنیا کے تمام سونے کے ذخائر پر قبضہ۔
2. ذرائع ابلاغ اور خبر رساں ایجنسیوں پر مکمعل گرفت۔
میڈیا کی ہمہ گیر افادیت اور اس کے عالمگیر اثرات پر تبصرہ کرتے ہوۓ یہودیوں نے اپنی بارہویں 12 دستاویز میں کہا تھا کہ:اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سونے کے ذخائر پر قبضہ کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لیے دوسرا اہم درجہ رکھتا ہے ۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے۔ ہم اپنے دشمنوں کے قبضے میں کوئی ایسا مؤثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی راۓ کو مؤثر ڈھنگ سے ظاہر کر سکیں اور نہ ہی ہم ان کو اس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئي خبر سماج تک پہنچ سکے۔ ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر اور پریس والے کے لیے یہ ناممکن ہو گا کہ وہ پیشگی اجازت لیے بغیر کوئی چیز چھاپ سکے۔ اس طرح ہم اپنے خلاف کسی بھی سازش یا معاندانہ پروپیگنڈے سے با خبر ہو جائیں گے۔ ہمارے قبضہ اور تصورف میں ایسے اخبارات اور رسائل ہوں گے جو مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تائید اور حمایت کریں گے، خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی داعی(دعوت دینے والی) ہوں یا انقلاب کی حامی۔ حتی کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سرپرستی کریں گے جو انتشار ، بے راہ روی ، جنسی اور اخلاقی انارکی ، استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت اور حمایت کریں گے۔ ہم جب چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے اور جب مصلحت دیکھیں گے انہیں پر سکون کر دیں گے، اس کے لیے صحیح اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیں گے ۔ ہم ایسے اسلوب (طریقے) سے خبروں کو پیش کریں گےکہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ ہم اس کی پوری احتیاط برتیں گے کہ پہلے سے ٹھونک بجا کر اور اچھی طرح نبض ٹٹول کر اقدام کریں۔
ہمارے اخبارات اور رسائل ہندؤوں کے معبود " وشنو" کی طرح ہوں گے جس کے سینکڑوں ہاتھ ہوتے ہیں۔ ہمارے پریس کا یہ بنیادی کام ہو گا کہ وہ اپنے مختلف موضوعات اور کالموں کے ذریعے راۓ عامہ (عام لوگوں کی راۓ) کی نبض پر ہاتھ رکھے رہے ۔ہم یہودی ایسے مدیروں اور ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں کی ہمت افزائی کریں گے جو بدکردار ہوں اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ ہو۔ ہمارا یہی معاملہ بدعنوان سیاستدانوں اور لیڈروں امو مطلق العنان حکمراںوں کے ساتھ ہو گا۔ ان کی ہم خوب تشہیر کریں گے، ان کو دنیا کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کریں گے۔ لیکن ہم جیسے ہی محسوس کریں گے کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں بس فورا ہم ان کا کام تمام کردیں گے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔ ہم یہودی ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے کنٹرول کریں گے۔ ہم تفصیل کو غیر معمولی اہمیت دیں گے تاکہ پڑھنے والوں کا ذہن تیار ہو ، اس انداز سے کہ قاری (خبر پڑھنے والے) کو مجرم سے ہمدردی ہو جاۓ۔
چنانچہ اپنے انسانیت سوز منصوبے کی تکمیل کے لیے انہوں نے یکے بعد دیگرے عالمگیر شہرت رکھنے والی خبر رساں ایجنسیوں اور اخبارات و رسائل کو سرمایہ کے بل پر خریدنا شروع کیا اور نہایت سرعت کے ساتھ اپنے تمام مفادات کے لیے نۓ اخبارات اور رسائل نیز خبر رساں ایجنسیوں کا بھی افتتاح کیا جنہوں نے دنیا کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اپنے تابع اور محکوم بنا لیا۔
----------------------------
از: ماھنامہ العاقب لاھور شوال تا ذوالحجہ1430ھ اکتوبر تا دسمبر 2009ء
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.