You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
1974ء ميں وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں احمدیوں(قادیانیوں، مرزائیوں)کوغیرمسلم اقلیت قرار دیدیاگیا، اس تحریک کے اصل محرک مولانا شاہ احمد نورانی تھے انہوں نے 30 جون کو ایک تاریخی قرارداد جمع کرائی اور 6 ستمبر 1974 تک بحث و تمحیص کے بعد اسے ایک قانونی شق کی حیثیت دے دی گئی۔
قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کے خلاف کئی سال تک تحریکیں چلتی رہیں، 1953 اس حوالے سے زیادہ مشہور سال ہے ان تحریکوں میں کئی علماء مثلاً مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا مودودی صاحب کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوا۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی میں قادیانی عقائد کے خلاف ایک قرارداد منظور ہو چکی تھی کہ پنجاب کے شہر ربوہ میں 29 مئی کو مسلمان طلباء پر قادیانیوں نے حملہ کرکے تشدد کیا جسے سانحہ ربوہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی اور اس واقعہ کے تھوڑا عرصہ بعد مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی (پاکستان) میں 30 جون 1974 کوقادیانیوں/احمدیوں اور لاہوری گروپ کے بارے میں ایک قرارداد پیش کی کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول تھے لہٰذا اس باطل عقیدے کی بناء پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے
اس تحریک میں سب مکاتب فکر کے علماء مثلاً مولانا محمد یوسف بنوری، مفتی محمود اورمولانا مودودی کے علاوہ شیعہ علماء بھی شامل تھے علماء کے علاوہ دیگر بہت سے سیاستدانوں نے حصہ لیا جن میں جناب نوابزادہ نصر اللہ خان کا نام نمایاں ہے، سوائے چند ایک ارکان قومی اسمبلی پاکستان کے اکثر ارکان نے اس قرارداد کی حمایت میں دستخط کر دئیے، مرزائی/قادیانی اور لاہوری گروپ کے نمائندوں کو ان کی خواہش کے مطابق اپنی صفائی کا مکمل موقع دیا گیا اور دوماہ اس پر بحث ہوتی رہی پوری قومی اسمبلی کے ارکان کو ایک کمیٹی کی شکل دے دی گئی تھی اور کئی کئی گھنٹے کیمرے کے سامنے بیانات و دلائل و جرح کا سلسلہ جاری رہتا، اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحیٰ بختیار فریقین کے مؤقف کو سن کر ایک دوسرے تک بیان پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ کمیٹی اس بات کی پابند تھی کہ کئی سال تک اس مناظرے کو کہیں نشر نہیں کرے گی
بہت سے سیاستدان اس تحریک سے قبل اس مسئلے کی سنگینی سے ناواقف تھے، لیکن جب انہیں کیمرے کے سامنے قادیانی نمائندوں (مرزا ناصر وغیرہ) کے قول و اقرار سے اصل صورت حال کا علم ہوا تو وہ بھی اپنے ایمان کی حفاظت کے سلسلے میں سنجیدہ ہو گئے، بالآخر مرزا ناصر سے ایک سوال ہوا کہ اگر کبھی دنیا میں کہیں تم لوگوں کی حکومت قائم ہوجائے تو تم غیر احمدی (قادیانی/مرزائی) کلمہ گو مسلمانوں کو وہاں کس درجے میں رکھو گے تو اس نے جواب دیا کہ ہم انہیں اقلیت سمجھیں گے، یوں اس کے کلیہ کے مطابق قادیانیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ اب پاکستان کے مسلمان غیر سرکاری طور پر 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت کے طور پر مناتے ہیں
اس قانون کے پاس ہوتے ہی قادیانیوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس قانونی ترمیم کو چیلنج کیا، مسلمانوں کی طرف سے ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی اور قادیانیوں کی طرف سے فخرالدین جی ابراہیم نے اس کیس کی پیروی کی، لیکن مرزا غلام احمد کی تصانیف میں لکھی ہوئی اسلام مخالف باتیں دلائل قاطعہ ثابت ہوئیں اور قادیانی کورٹس میں بھی خود کو مسلمان ثابت نہ کر سکے
نوٹ: اس سے ملتا جلتا مضمون میں نے اردو وکیپیڈیا پر لکھا تھا۔ عبدالرزاق قادری
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.