You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تزکیۂ باطن کیلئے تعلیماتِ خواجہ غریب نواز کی عصری معنویت
غلام مصطفی رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
----------------------------------------------
یہ فطری ضابطہ ہے کہ فکری تباہی، عملی زوال،نظریاتی گراوٹ، اعتقادی پستی و بے راہ روی کی انتہا پر اصلاح وتجدید کے لیے اللہ کریم اپنے خاص بندے کو بھیجتا ہے۔ اور یہ بھی حیرت کا مقام ہے کہ اقتداروشوکت و قوت کے مقابل بندۂ مومن کو تنہا اور ظاہری ومادی اسباب کے بغیر بھیجا جاتا ہے،اور دُنیا دیکھتی ہے کہ اس بندۂ مومن کے آگے طاغوتی قوتیں سرنگوں ہوجاتی ہیں اور بالآخر حق کی فتح مبین ہوتی ہے، ایسی ہی عظیم ذات معین الحق والدین سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمۃاللہ علیہ[ولادت۵۳۷ھ-وصال۶۳۳ھ] کی ہے، جن کی خدماتِ جلیلہ سے گلشن ہندوستان میں بہارآئی۔اور کفر وشرک کے ایوان خزاں رسیدہ ہوئے۔
چھٹی و ساتویں صدی ہجری کا دور بڑا ابتلا خیز تھا، مسلم مملکتوں کے حالات ابتر تھے۔ صلیبیوں کی معرکہ آرائی، قرامطہ کی یورش، فتنوں کا ہجوم، دہریت کا طوفاں، طوائف الملوکی ایسے فتنہ خیز ماحول میں سلطان الہند خواجہ غریب نواز نے داعیِ دین کی حیثیت سے عملی کردار ادا کیا اور اشاعتِ اسلام کے مقدس کارواں کو تیز گام کیا۔نبوی بارگاہ کے فیض یافتہ اس محسنِ ہند نے وطن و ملک کو چھوڑکر سیاحت اختیار کی۔ مختلف علاقوں میں تزکیہ و اصلاح کا مبارک فریضہ انجام دیتے ہوئے لاہور پہنچ کر عظیم مبلغ اسلام حضرت داتا گنج بخش ہجویری علیہ الرحمہ کے دربار میں مختصرقیام کر کے عازم ہند ہوئے، اس درمیان جو معرکہ آرا شعر کہا وہ آج بھی تاریخ اسلامی کا نقشِ جمیل ہے ؎
گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
داعی حق کے کردار وعمل اور اخلاق واطوار ایسے متاثر کن ہوتے ہیں کہ اس کی بات دلوں میں اُترتی چلی جاتی ہے،حضور غریب نواز نے قیام دہلی کے دوران نواحِ دہلی میں اورعزمِ اجمیر کے دوران راہ میں سیکڑوں مشرکین کو داخلِ اسلام کیا۔ مشرکین کے مذہبی مرکزِعقیدت -اجمیر-کو غریب نواز نے اپنی خدمات کا محور بنایا۔ ایسے مقام پر اشاعتِ دین سخت مشکل ہے۔ آپ نے جس عزیمت و استقامت کا مظاہرہ کیا اور حکمت و تدبیر کے ساتھ مشنِ اسلام کو فروغ دیا وہ آپ کی حیات کا تابندہ باب ہے۔مشاہدہ ہے کہ برسوں کی تبلیغ کے نتائج صفر ظاہر ہوئے اوراولیاء اللہ کے اخلاقِ کریمانہ سے دل پھر گئے۔ دعوت کا رُخ و مزاج بدل دیا جائے تو پھر انقلاب کا تصور فسانہ بن جاتا ہے۔غریب نواز نے زمانی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مشنِ اسلام کو کامیاب کیا۔ سحروجادو کے مقابل کرامتوں کے ذریعے توحید کے اُجالے پھیلائے۔
تعلیماتِ خواجہ غریب نوازسے چند پہلو زمانی و عصری اعتبار سے یہاں پیش کیے جاتے ہیں؛ خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں:
’’اہلِ طریقت کے لیے دس شرطیں لازم ہیں:
[۱]طلبِ حق
[۲]طلبِ مرشد
[۳]ادب
[۴]رضا
[۵]محبت و ترکِ فضول
[۶]تقویٰ
[۷]استقامت و شریعت
[۸]کم کھانا کم سونا
[۹]خلق سے تنہائی اختیار کرنا
[۱۰]روزہ و نماز۔‘‘
[بحوالہ دلیل العارفین]
[۱]طلبِ حق:
بندۂ مومن کے لیے جن شرائط کو حضور غریب نواز نے لازم فرمایا اس میں ایک طلبِ حق ہے۔ ماسوا اللہ سے نگاہیں موند کر صرف ذاتِ حق کی جستجو طلبِ صادق ہے، اسی کی طرف رغبت بندے کومقصدِ تخلیق سے قریب کرنے کا سبب بنتی ہے۔روحانیت کے درجاتِ عالیہ تک پہنچاتی ہے۔
[۲]طلبِ مرشد:
رہبری و رہنمائی اور تزکیۂ روح و قلب کے لیے مرشد کا ہونا ضروری ہے، اور مرشدِ برحق کی شرائط میں عقائدِ صحیحہ، سلسلے کا اتصال اور فاسق ومعلن نہ ہونا نیز پابندیِ شریعت ضروری ہے۔
[یہ شرائط امام احمد رضا محدث بریلوی متوفی۱۹۲۱ء نے بھی ذکر کی ہیں۔]
[۳]ادب:
تیسری شرط اہل اللہ کی حضور غریب نواز نے ادب بتائی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ توہین وبے ادبی نے ہی شیطان کو معلم الملائکہ کے منصبِ بلند سے ذِلت تک پہنچایا۔ ادب کے بغیر مقصود تک رسائی محال ہے، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کی تعلیم قرآن عظیم نے دی، اسی ادب نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو صحابیت جیسے عظیم درجے پر پہنچایا۔ اسی احترام و ادب نے ہر دور کی بڑی ہستیوں کو بڑے مقام پر فائز کیا۔جنھوں نے ادبِ بارگاہِ رسالت کو توحید کے منافی خیال کیا ان سے فرقہ واریت و انتشار کو فروغ ملا۔
[۴] رضا:
رضا بھی اہل اللہ کاایک مقام ہے، حضورغریب نواز نے مختلف احوال و امتحانات میں ثابت قدمی کی ترغیب دی، کہ جو اللہ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دے تو اسے تمام احوال میں راضی برضا رہ کر امتحانِ قدرت میں کامیابی کی فکرکرنی چاہیے، اوربجائے شکوہ و شکایت کے ہر حال میں شکر گزاری کو وطیرہ بنانا چاہیے۔
[۵]محبت و ترک فضول:
محبوبِ حقیقی سے محبت وعشق کا درس ہمیں اَسلاف نے دیا، حضور غریب نواز نے اللہ کریم و رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی محبت کا عملی نمونہ پیش کر کے متاعِ عشق کی سلامتی کی ترغیب دی، فضولیات کا ترک یہ ہے کہ دُنیا کی رغبت سے منھ موڑ لیا جائے، اپنی محبت و عقیدت کا محور محبوبِ حقیقی جل جلالہ کو بنایا جائے، محبوبِ رب العالمین کو بنایا جائے، اور ماسوا سے چہرہ پھیر لیا جائے۔
[۶]تقویٰ:
خواجہ غریب نواز کا یہ نکتہ ان لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے، جو نام و نمود، شہرت کی ہوس میں حق و باطل کا امتیاز نہیں کرتے، احقاقِ حق سے اہلِ حق کو روکتے ہیں ، بے پردگی اور دُنیا داری میں مبتلا ہیں،دین کی روح سے دور ہو بیٹھے۔ ایسے افراد اللہ والے نہیں ہوسکتے۔ اللہ والے وہی ہیں جو تقویٰ شعار ہوں۔
[۷]استقامت و شریعت:
تصلب فی الدین کی تعلیم غریب نواز نے اس نکتے میں دی، شریعت سے رُو گردانی، طبیعت کی پیروی عوام کیا خواص میں بھی پائی جا رہی ہے، احکام شریعت معاذاللہ بوجھ بن گئے! افسوس اس پر ہے کہ قائد بننے والے تقویٰ شعار علماکی مخالفت میں شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں؛ حقیقت میں یہ استقامت فی الدین سے دوری اور حبِ مال وجاہ کے سبب ہے، اس روح کو خواجہ غریب نواز نے ۷؍صدی قبل پیش کر کے شریعت کی قدر اجاگر کی اور آج اس نکتے پر عمل آوری کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔
[۸]کم کھانا کم سونا:
اہل اللہ کے لیے غریب نواز نے یہ تاکید کی کہ وہ غذا وآرام میں احتیاط برتیں، افراط و تفریط سے قلب یادِ الٰہی سے غافل ہوجاتاہے۔ قلبِ روشن، فکرِ تاباں، معطر دماغ کے لیے کم کھانا، کم سونا ضروری ہے، اس سے روحانیت بڑھتی ہے ۔
[۹]خلق سے تنہائی اختیار کرنا:
عہدِ غریب نواز میں اس قدر برائیاں عام نہ تھیں، وہ دور اخلاقی اعتبار سے بہر حال غنیمت تھا، جیسی برائیاں آج ہیں اس سے ہر صالح فکر پریشان ہے، ایسے میں غریب نواز کی تعلیم ’’خلق سے تنہائی‘‘ افادیت و شخصیت سازی کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
[۱۰]روزہ و نماز:
حضور غریب نواز نے احکام اسلامی پر عمل آوری کرنا بندۂ مومن کی صفت بتائی۔ یہ کہ نمازوں کو ان کے وقتوں پر ادا کرتا ہو، اس میں کوتاہی سے بچتا ہو، رمضان کے روزوں کا پابند ہو، یہ نہیں کہ صوفی ’’ اللہ والا‘‘ خود کو کہلواتا ہو اور نماز روزوں سے دور۔ ایسا شخص شیطان کا چیلا ہوتا ہے۔
مذکورہ نکات کے ذریعے حضور غریب نواز نے بندۂ مومن کی پہچان بتائی۔ کہ جو ان باتوں کا تارک ہو وہ سچا صوفی اور اللہ والا نہیں۔ یہی در حقیقت اولیا کی تعلیمات کا حاصل ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے، ان کی مختصر باتیں بڑی انقلاب بداماں ہوتی ہیں۔ جن سے صحنِ حیات مہک اٹھتا ہی، شخصیت نکھرتی اور اخلاق سنورتا ہے، افکار مہکتے ہیں، دل کی دنیا خوش گوار اثرات سے تازہ ہو اُٹھتی ہے۔
الغرض! خواجہ غریب نوازکے اس نوع کے اقوال کثیر ہیں، جن پر تبصرہ کثیر صفحات و ضخیم مجلدات میں بھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ شریعت پر استقامت اور احکامِ اسلامیہ کی پاس داری کا جو درس حضور غریب نواز نے دیا اسی کی تجدید مجدد الف ثانی،مخدوم سمنانی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی،علامہ فضل رسول بدایونی، علامہ فضل حق خیرآبادی و امام احمد رضا بریلوی نے اپنے اپنے عہد میں کی، اور دین کو فتنہ سامانیوں سے بچایا۔ آج اسی کی ضرورت ہے، یہی بزرگانِ دین و سلفِ صالحین سے نسبت و تعلق کا حاصل ہے کہ ان کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور دلوں کے طاق پر انھیں آراستہ کیا جائے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.