You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تفسیرِقرآن کی تاریخ تقریباً چار ادوار پر مشتمل ہے جو کہ درج ذیل ہیں :
پہلا دور:
قرآنِ مجید روشن عربی زبان میں اور لغتِ عرب کے اسلوب اور بیان کے مطابق نازل ہوا، اس لئے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس عظیم کلام کو سمجھ لیتے اور انہیں اس کے اغراض و مقاصد معلوم ہو جاتے لیکن چونکہ تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم علمی اور عقلی اعتبار سے ایک جیسے نہ تھے بلکہ علم و فہم کے لحاظ سے ان کے مَراتب میں فرق تھاا س لئے جب کسی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قرآنِ مجید کے کسی لفظ کے معنی سمجھنے میں دشواری ہوتی تو وہ بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کردیتے اور حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س کے معنی بیان فرما کر ان کی تَشَفِّی فرما دیتے، اسی طرح بعض اوقات سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ خود ہی قرآنی آیات کے معنی بیان فرما دیتے اور یہی وہ دور ہے جس میں قرآنِ مجید کی تفسیر بیان کرنے کی ابتداء ہوئی ۔
اس مرحلے میں سب سے پہلے قرآنِ مجید کی تفسیر اور اس کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بیان فرمائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی مراد کو سب سے زیادہ جانتا ہے اور اس کے بعد تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سامنے قرآنِ عظیم کی تفسیر بیان فرمائی ۔اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اس منصب کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
’’ وَ اَنۡزَلْنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمْ‘‘ (نحل : ۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾‘‘ (سورۂ جمعہ:۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہی (اللہ)ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔
دوسرا دور:
جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے وصال فرمایا توصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا مقدس زمانہ آیا اور یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے براہِ راست سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے قرآن عظیم کی تعلیم حاصل کی، ان میں سے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایسے تھے جنہوں نے ا س کام کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی ۔انہوں نے اہلِ زبان ہونے اور نزولِ قرآن کے ماحول سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود اپنی زبان دانی پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے قرآن مجید سیکھا اور اس کے اَسرار و رُموز کی معلومات حاصل کیں۔ مشہور تابعی عالم حضرت ابوعبد الرحمن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے جو حضرات ہمیں قرآن عظیم کی تعلیم دیا کرتے تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دس آیتیں سیکھتے اور اس وقت تک ان سے آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ہم ان آیات کی تما م علمی اور عملی باتوں کا علم حاصل نہ کر لیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب فضائل القرآن، فی تعلیم القرآن کم آیۃ، ۷/۱۵۲، الحدیث: ۱)
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب کوئی شخص (نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے) سورۂ بقرہ اور سورۂ اٰلِ عمران پڑھ لیتا تو وہ ہماری نظروں میں بہت قابلِ احترام ہوجاتا تھا۔
(شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب علامات النبوۃ، ۷/۷۶، الحدیث: ۳۶۱۹)
اس دور میں جب لوگوں کو قرآنی آیات کے معنی سمجھنے میں مشکل ہوئی تو انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بارگاہ میں حاضری دی اور چشمہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے فیضیاب ہونے والی ان ہستیوں سے مطالب ِ قرآنی سیکھے، البتہ یہاں ایک بات یاد رہے کہ نہ تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے پورے قرآن مجید کی تفسیر بیان فرمائی اور نہ ہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے مکمل قرآن عظیم کی تفسیر ذکر کی بلکہ ان کی تفسیر کا مِحوَر کسی لفظ کی وضاحت، لغت سے اِستِشہاد، شانِ نزول کا بیان اور ناسخ ومنسوخ وغیرہ کا ذکر تھا اور ا س کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ خود اہل زبان تھے اور لغت ِعرب کے اسلوب و بیان سے پوری طرح واقف تھے ا س لئے انہیں پورے قرآن کی تفسیر کی حاجت نہ تھی۔
مفسرصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے چند مشہور مفسرین کے اسمائے گرامی یہ ہیں
(1) حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔
(2) حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم۔
(3) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔
(4) حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔
(5) حضرت اُبی بن کعبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔
(6) حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔
(7) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ۔
(8)حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔
(9)حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔
تیسرا دور:
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد تابعین کا زمانہ آیا ، ان کے پاس اگرچہ تفسیرِ قرآن کا ایک معتد بہاذخیرہ تھا لیکن وہ پورے قرآن عظیم کی تفسیر نہ تھی بلکہ بعض آیات کی تفسیر تھی۔ اس دور میں اسلام اطراف ِعالم میں پھیل چکا تھا اور جو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم موجود تھے وہ مختلف شہروں میں دینِ اسلام کی خدمت میں مصروف تھے، اسی دور میں مختلف فتنے اٹھے، لوگوں کی آراء میں اختلاف ہوا اور فتاویٰ کی کثرت ہوئی تو تابعین نے حدیث ،فقہ اور قرآن مجید کے علوم کی تدوین کی طرف توجہ فرمائی ۔تفسیرِ قرآن کے سلسلے میں انہوں نے حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے طریقے کی پیروی کی کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے بیان کی، پھر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی احادیث سے بیان کی اور مزید یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں انہیں قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی احادیث سے قرآنی آیات کی تفسیر نہ ملی وہاں قرآنِ مجید کی تفسیر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے آثار سے بیان کی اور جہاں انہیں تفسیرِ قرآن سے متعلق صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے آثار نہیں ملے وہاں انہوں اِجتہاد و اِستِنباط سے کام لیااوراسی دور میں کتب تفسیر کا ایک ذخیرہ معرض وجود میں آیا۔
مفسر تابعین:
تابعین میں سے چند مشہور مفسرین کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
(1) حضرت ابن المُسَیَّبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ ۔
(2) حضرت عروہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(3) حضرت سالمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(4) حضرت عمر بن عبد العزیزرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(5) حضرت سلیمان بن یساررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(6) حضرت عطاء بن یساررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(7) حضرت زید بن اسلمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(8)حضرت ابن شہاب زہری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(9)حضرت حسن بصریرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(10) حضرت مجاہد بن جُبیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(11)حضرت سعید بن جُبَیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(12)حضرت علقمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(13)حضرت قتادہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(14) حضرت امام ابن سیرینرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(15) حضرت ابراہیم نخعیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
(16) حضرت امام شعبیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالى عَنْہُ۔
چوتھا دور:
تابعین کے بعد اموی اور عباسی خلفاء کے دور میں تفسیرِ قرآن پر بہت کام ہوا اور اس وقت سے لے کر اب تک مختلف زبانوں میں اور مختلف اقسام میں کثیر تفاسیر لکھی گئی ہیں ۔ان میں سے عربی زبان میں چند مشہورتفاسیر یہ ہیں :
نمبر شمار تفسیر کا نام مصنف کا نام
1: جَامِعُ الْبَیَان فِیْ تَأوِیْلِ الْقُرْآن ابو جعفرمحمد بن جریر طبریرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
2: بَحْرُ الْعُلُوْم فقیہ ابولیث نصر بن محمد سمرقندیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
3: تَفْسِیْرُ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم حافظ عبد الرحمن بن محمد،ابن ابی حاتم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
4: تَاْوِیْلَاتُ اَہْلِ السُّنَّۃ ابو منصور محمد بن محمد ماتریدیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
5: اَلنُّکَتُ وَالْعُیُوْن ابو الحسن علی بن محمدماوردیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
6: اَلْوَجِیْزْ فِیْ تَفْسِیْرِ الْکِتَابِ الْعَزِیْز ابو الحسن علی بن احمدواحدیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
7: اَحْکَامُ الْقُرْآن ابو بکر احمد بن علی جصاصرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
8: اَحْکَامُ الْقُرْآن ابو بکر احمد بن حسین بیہقیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
9: اَحْکَامُ الْقُرْآن ابو بکر محمد بن عبداللّٰہ ،ابنِ عربیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
10: مَعَالِمُ التَّنْزِیْل فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن ابو محمدحسین بن مسعود بغویرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
11: زَادُ الْمَسِیْرفِیْ عِلْمِ التَّفْسِیْر امام جمال الدین عبد الرحمن بن علی بغدادیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
12: اَلتَّفْسِیْرُ الْکَبِیْر ابو عبداللّٰہ محمد بن عمر رازیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
13: اَلْجَامِعُ لِأَحْکَامِ الْقُرْآن ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
14: اَنْوَارُ التَّنْزِیْل وَاَسْرَارُ التَّأوِیْل اصرالدین ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاویرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
15: مَدَارِکُ التَّنْزِیْل وَحَقَائِقُ التَّأوِیْل ابو البرکات عبداللّٰہ بن احمدنسفیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
16: لُبَابُ التَّأوِیْل فِیْ مَعَانِیِ التَّنْزِیْل علاء الدین علی بن محمدخازنرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
17: اَلْبَحْرُ الْمُحِیْط ابو حیان محمد بن یوسف اندلسیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
18: تَفْسِیْرُ اللُّبَاب فِیْ عُلُوْمِ الْکِتَاب ابو حفص سراج الدین عمر بن علی دمشقیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
19: تَفْسِیْرُ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیردمشقیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
20: اَلدُّرُ الْمَنْثُوْر فِی التَّأوِیْلِ بِالْمَأثُوْر عبد الرحمن بن ابی بکر، جلال الدین سیوطیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
21: تَفْسِیْرُ الْجَلَالَیْن جلال الدین محلی و جلال الدین سیوطیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِمَا
22: اِرْشَادُ الْعَقْلِ السَّلِیْم ابو السعود محمد بن محمد عمادیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
23: رُوْحُ الْبَیَان شیخ اسماعیل حقیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
24: رُوْحُ الْمَعَانِی شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادیرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
25: حَاشِیَۃُ الْجُمَل عَلَی الْجَلَالَیْن شیخ سلیمان الجملرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
26: حَاشِیَۃُ الصَّاوِی عَلَی الْجَلَالَیْن علامہ احمد صاویرَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالى عَلَیْہِ
===========
از:’’صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن‘‘
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.