You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ان شریعت کے جھوٹے دعوے دار شدت پسند ظالموں سے اس قسم کے ناپاک اور کراہت آمیز فعل کی توقع کوئی اچنبھے کی بات نہیں جیسا انہوں نےملکِ شام میں جنسی جہاد کرکے کیا، ان کے پیشرؤوں نے اڑھائی صدیاں قبل عرب (وادی حجاز) میں پھر تقریبا پونے دو صدی قبل یہاں متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں’’جہاد‘‘ کے نام پر جو فساد بپا کیا تھا جس کا منطقی انجام 1831ء میں ان جاہل درندوں کے قتل سے ہوا، اور تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر پر قابض کافر انگریز ان وہابی خوارج کی پشت پناہی کررہے تھے!!! پھر انہوں نے ہندوستان میں انگریز کی کاسہ لیسی اختیار کی اور’’سر‘‘ اور’’شمس العلماء‘‘ کے خطابات انگریز سے حاصل کئے
جبکہ اس دور میں مسلمان علماء و مشائخ اور مفتیان کرام کو کالے پانی کی سزائیں دی جا رہی تھیں جن میں مجاہد اعظم مولانا فضل حق خیرآبادی کا نام شامل ہے اور مسلمان علماء کو انگریز کے خلاف جہاد کے فتاویٰ دینے کی پاداش میں دلی کے چاندنی چوک میں پھانسی دی جا رہی تھی اور سر سید احمد خان و ڈپٹی نذیر احمد دہلوی جیسے غدار وہابی انگریزوں کی غلامی کو سندِ افتخار بتاتے پھر رہے تھے، ایک طرف مساجد کو مسمار کیا جا رہا تھا کہیں مساجد کو تالے لگائے جا رہے تھے تو کہیں مساجد کو گھوڑوں کے اصطبل میں تبدیل کیا جا رہا تھا اور دلی کی گلیاں مسلمانوں کے خون سے برساتی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں اتنے میں انگریز کے ایما پر اور امداد سے حتیٰ کہ ہندؤں کے چندے سے ایک’’دارالعلوم دیوبند‘‘ قائم ہونے کے شادیانے بج رہے تھے، ایک صدی بعد اس دارالعلوم کے صد سالہ جشن میں بیٹھی ایک کافر و مشرک عورت جس کا لباس بھی غیر اسلامی تھا، کس طالبانی شریعت کی نمائندہ بنی ہوئی تھی؟ طالبان خوارج کا ایک بھیانک روپ ہے اور اس نے دیوبندیت یعنی حد درجے کی منافقت کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور دیوبندیت کا ماخذ وہابیت ہے جس کا تصور اور تعارف‘‘ہمفر’’ نے اپنی ڈائری میں بیان کیا ہے، ان کا مؤسس اعلیٰ ایک کذاب، نبوت کا جھوٹا دعویدار، محمد بن عبدالوہاب تھا، جس کے’’شرپسندانہ‘‘ اقدامات کے خلاف اس کے محترم والد اور بھائی نے خوب علمی کام کیا حتیٰ کہ اس کے بھائی نے اس کے خلاف ایک کتاب لکھی چونکہ سابقہ باطل فرقوں کی طرح وہابی بھی اپنے بانی محمد بن عبدالوہاب کے نام پر’’محمدی‘‘ کہلوانا چاہتے تھے لیکن مسلمان علماء و مفتیان کرام اور مشائخ عظام نے بروقت ان کے دجل و فریب کا محاسبہ کیا اور دین محمدی کا ٹائٹل ہائی جیک ہونے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا، پھر یہ فتنہ وہابیت، وہابیہ اور وہابی کے نام سے معروف ہوا، حتیٰ کہ انیسویں صدی عیسوی کے آخری ربع میں ہندوستان کے انگریزی پالتو وہابیوں نے اپنا ٹائٹل وہابی سے’’اہلحدیث‘‘ منظور کروایا جہاں وہابیت سے بہت سے فتنے نمودار ہوئے وہاں سائنسی طرز پر تحریکی کام کرنے والی شدت پسند تحریکوں کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا جن میں
1. جماعت اسلامی
2. اخوان المسلمون
3. تنظیم اسلامی
4. حزب التحریر سمیت بہت سی تنظیمیں ایسی سائنٹیفک بنیادوں پر مارکیٹ میں لائی گئیں کہ وہ مسلمان عوام میں آسانی سے قدم جما سکیں اور ان کے بھولے بھالے معصوم بچوں کے جہاد کے نام پر ورغلا کر زمین پر فساد پھیلانے کے لئے استعمال کیا جا سکے اگر امریکہ و ہمنوا طالبان اور وہابیوں کے دشمن ہیں تو یہ شام میں اس وقت بھی کیوں ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں، پاکستان سے لشکر جھنگوی سابقہ نام نہاد سپاہ صحابہ پاکستان (اور موجودہ جھوٹی تنظیم اہلسنت والجماعت) کے درندے اور تحریک طالبان کے ظالمان کس انعام کی خاطر شام میں امریکہ کے ایما پر خون کی ہولی کھیل رہے ہیں؟ طالبان اور ان کے ہمنوا فسادیوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ یہ عوام الناس کو فلسطین کے بچوں پر ہونے والے اسرائیلی ظلم کی وڈیوز دکھا دکھا کر جذباتی طور پر اپنا حمایتی بناتے ہیں لیکن لڑائی کرنے ملک اسرائیل میں کبھی نہیں جاتے، وہابی فسادیوں کا ملک اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جانا تاریخ میں ایک بار بھی ثابت نہیں ہے اس کی وجہ نہایت واضح ہے کہ فلسطین کی سر زمین، یمن کے قزاقوں نے لارنس آف عریبیہ کے طوفان کے بعد برطانوی سلطنت کو اپنی حکومت کے عوض، ایک معاہدے کے تحت صبح قیامت تک کے لئے لکھ کر دستخط کر کے دے دی تھی اور برطانوی سامراج اس سرزمین پر ایک یہودی صیہونی ریاست قائم کروانے میں بظاہر کامیاب ہو گیا
اب چونکہ سعودی عریبیہ امریکہ کا وفادار ہے اور وہابی دیوبندی فسادی فرقےسعودی عرب کے ریال کھانے والے ہیں اور امریکہ کے ڈالروں پر پلتے ہیں لہٰذا ان ظالموں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنے آقاؤں کے چہیتے ملک اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے جائیں، حال ہی کی بات ہے ستمبر 2013 میں جب امریکی ملک شام پر حملہ کرنے جا رہا تھا تو سعودی عرب مکمل امریکی اعتماد میں تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کئی عرب ممالک امریکہ کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروا رہے تھے اور پاکستان میں وہابی شدت پسند تنظیموں کے ایجنٹ اچھل اچھل کر امریکہ کی حمایت کا پروانہ جاری کر رہے تھے ان کو خوشی اس بات کی تھی کہ امریکہ کے ہاتھوں ملک شام کے شدت پسند شیعہ حکمران بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوگا پھر وہاں وہابی ‘‘خلافت’’ قائم کی جا سکے گی جو شام کے 80 فیصد اہل سنت کو دبا کر رکھے گی اور شیعہ کا تو جڑ سے صفایا کردے گی ایسے حالات میں سعودی عرب کے کسی وہابی نام نہاد مفتی کا یہ اجازت نامہ جاری کردینا کہ ملک شام میں جاکر جنسی جہاد جیسا حرام زادوں والا کرتوت جائز تھا، یہ ان کے نزدیک ایک چھوٹا سا جرم تھا کیونکہ انہوں نے تو شرک و بدعت کے نام پر اہل بیت کرام، صحابہ کرام اور اولیاء عظام کے مقدس مزارات کو شہید کرنے سے دریغ نہیں کیا، پاکستان میں تقریبا تمام بڑے مزارات پر بم دھماکے ان لوگوں نےکر لئے ہیں، لیبیا کے معمر قذافی کو اقوام متحدہ میں کی گئی ایک کھری تقریر مہنگی پڑ گئی ورنہ اس کی رعایا میں سے تو بیٹا اپنے باپ کی بادشاہ کے خلاف تنقید کو برداشت نہیں کرتا تھا وہاں بھی وہابیت کے ناسور سے ظلم و ستم کا کام لیا گیا اور’’حزب التحریر‘‘ کے فارمولے کے مطابق فوج (شامی فوج کی طرح) کو دو حصوں میں تڑوا کر آپس میں خون کی ہولی کھیلی گئی، مالے میں پانچ اضلاع میں وہابی شریعت کے نفاذ کے بعد اور مزارات کے انہدام کے بعد فرانس کو بھی اس پر حملے کا جواز مل گیا اور لیبیا سمیت بہت سے افریقی مسلم ممالک میں اہل سنت والجماعت ان وہابی ظالم درندوں کے زیر عتاب ہیں وہابیہ کے منہ کو روز اول سے معصوم لوگوں کا خون لگ گیا ہے اور یہ بھیڑئیے کی طرح شکار کی تلاش میں رہتے ہیں ان کی اس خوبی میں سلفی اور دیوبندی وغیرہ کی کوئی تمیز نہیں ہے یہ تمام درندے ہیں، انہوں نے تو معاذاللہ، اللہ کے پاک پیغمبر کے دربار اقدس پر حاضری کو شرک گردانا ہوا ہے اور حتیٰ کہ ان ظالموں نے تو ہمارے پیارے نبی پاک صاحب لولاک رحمۃ اللعٰلمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے مزار اقدس کو شہید کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن جس نبی کو یہ (نعوذ باللہ) مردہ کہتے تھے اللہ عزوجل نے اسی نبیِ رحمت کی قبر انور کو ان فسادیوں سے محفوظ رکھ کر یہ ثابت فرما دیا کہ یہ فسادی جھوٹے ہیں
http://en.wikipedia.org/wiki/Sufism#Current_attacks
http://en.wikipedia.org/wiki/Destruction_of_early_Islamic_heritage_sites_in_Saudi_Arabia
http://www.dailymotion.com/video/xwbzgx_hillary-clinton-admits-the-u-s-government-created-al-qaeda_tech
http://www.dailymotion.com/video/x1a73ii_hillary-clinton-we-created-al-qaeda_news
http://en.wikipedia.org/wiki/Treaty_of_Jeddah
http://en.wikipedia.org/wiki/Treaty_of_Darin
http://en.wikipedia.org/wiki/Treaty_of_Jeddah_(1927)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.