You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
شعب ابی طالب سے غزہ تک ۔ ۔ ۔ ۔
پھیلی ہوئی ظلم و بربریت کی داستان
--------------------------------------
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
-------------------------
ڈاکٹر نصیر احمد ناصر اپنی کتاب” پیغمبرا عظم و آخر“ میں لکھتے ہیں کہ
”مسلمانوں کی ہجرت ثانی کے بعد قریش اور بھی تلملائے اور اپنی چیرہ دستیوں میں بہت دور نکل گئے،لیکن نہ تو وہ انقلاب پسند مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرسکے اور نہ ہی اُن کی تحریک انقلاب کو دبا سکے،یہ درست ہے کہ تحریک جب تک حرکی رہتی ہے جمود اور تعطل کا شکار نہیں ہوتی،وہ زندہ و توانا رہتی اور آگے بڑھتی رہتی ہے،اگرچہ اُس کی رفتار سست ہی کیوں نہ ہو،تحریک اسلام کے قائد چونکہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اسلیئے قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو دبانے اور خاندان بنی ہاشم کی حمایت سے محروم کرنے کیلئے ایک سفاکانہ منصوبہ ترتیب دیا،اِس منصوبے کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خانوادے بنوہاشم کو شہر بدر اور محصور کرکے اُن کا معاشرتی مقاطعہ کرنا تھا،چنانچہ ایک معاہدہ طے پایا،جسے منصور بن عکرمہ نے لکھا اور اُسے خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکادیا،اِس معاہدے میں بنوہاشم میں سے صرف ابو لہب عبدالعزٰی بن عبدالمطلب شریک تھا،اِس معاہدے کی بڑی بڑی شقیں یہ تھیں،”اگر بنو ہاشم (حضرت) محمد ( مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)کو قتل (نعوذباللہ )کیلئے ہمارے حوالے نہ کریں تو اُن کا مکمل معاشرتی مقاطعہ کیا جائے،اُن کے ساتھ رشتے ناطے اور شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کرلئے جائیں،اُن سے خرید و فروخت اور لین دین ہر گز نہ کیا جائے،انہیں کھانے پینے کی چیزیں مہیا نہ ہونے دی جائیں،انہیں گلی بازاروں میں گھومنے پھرنے نہ دیا جائے،وغیرہ وغیرہ“
چنانچہ داعی انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے خانوادہ بھی،بجزابو لہب بن عبدالمطلب کے ایک کٹھن،صبرآزما بلکہ شکیب رُباآزمائش زندگی میں مبتلا ہوگیا،تحریک اسلام کیلئے یہ ایک انتہائی نازک وقت تھا،بنو ہاشم شہر چھوڑنے اور پہاڑ کی گھاٹی میں،جسے شعب ابی طالب (جو دراصل شعب بنی ہاشم ہے) کہتے ہیں سکونت پزیر ہونے پر مجبور ہوگئے،اگر چہ انہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ اِس اعتبار سے تحریک اسلام کے معاونین و مدد گار ضرور تھے کہ انہوں نے محض پیغمبر انقلابصلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تین برس تک،جس کا ایک ایک دن اُن کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا،انہوں نے شہر بدری،محصوری اور معاشرتی مقاطعہ کے صدمات اٹھائے اور مصائب جھیلے،لیکن اُن کے پائے عزم و ثبات میں کسی لمحے بھی لغزش نہ آئی،وہ شہر جس کی بنو ہاشم زینت تھے،جس میں اُن کی عظمت کے جھنڈے گڑے تھے،جس کے معامالات میں اُن کی آواز وزن رکھتی تھی،اُس شہر میں اُن کو قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی،وہ لوگ جن کے وہ سادات تھے،جو اُن کے مشوروں کے متمنی رہتے تھے اور اُن کی دوستی کو سرمایہ افتخار سمجھتے تھے،بیگانہ ہی نہیں اب دشمن بھی بن چکے تھے،بنو ہاشم کا جرم یہ تھا کہ وہ پیغمبرانقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوتے تھے اور اِس جرم کی پاداش میں اُن پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا،انہیں بھوکا رہنا پڑا،درختوں کے پتے،چھالیں کھانی پڑیں اور اپنی بے بسی و بے کسی پر دشمنوں کو قہقہے لگاتے اور آوازے کستے بھی دیکھنا پڑا،انہوں نے مسلسل تین برس تک سب کچھ دیکھا،سنا اور سہا،لیکن داعی انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے حوالے نہیں کیا،بنو ہاشم اِس شکیب رُبا تجربے سے گزرے اور کامیاب رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انقلاب کی راہیں بڑی کٹھن،دشوارگزاراور ہمت شکن ہوتی ہیں اورانہیں عزم و ایمان صبرو استقلال اور تدبرو حکمت سے گزارنا پڑتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِن مراحل سے گزرے،معاشرتی مقاطعے کے شکیب رُبا تجربے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ بطریق سایہ خداوندی و رحمت تھا،اِس کے بر عکس قریش کا طرز عمل ظالمانہ تھا،لہٰذا اِس کا فطری ردعمل مظلوموں کے حق میں ہوا اور وہ دن آگیا،جب قریش کے ہی افراد نے ابوجہل وغیرہ کی مخالفت کے باوجود اپنے ہاتھوں سے معاشرتی مقاطعے کا عہد نامہ چاک کردیا۔“بالکل اسی طرح آج کا غزہ جو دور جدید کی شعب ابی طالب ہے کی چار سال بعد اسرائیلی ظلم و بربت اور محاصرے سے نجات کے دن جلد آنے والے ہیں اور ترکی کی جانب سے اہل غزہ کی امداد کیلئے روانہ کیے گئے چھ بحری جہازوں پر مشتمل فریڈم فلوٹیلا (قافلہ آزادی )پروحشیانہ حملے میں بیس امدادی کارکنوں کی ہلاکت نے اسرائیلی وحشت و درندگی کو بے نقاب کرکے عالمی ضمیر کو جگانے میں جو کردار ادا ہے اُس کے بعد وہ دن دور نہیں جب دنیا اسرائیل کی جانب سے عائد غزہ پر پابندیوں کے حکم نامے کو خاک میں ملادے گی۔
قارئن محترم یہ وہی غزہ ہے جو پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد حضرت عبدالمطلب کے والد جناب ہاشم بن عبدمناف کی جائے آرام گاہ ہے اور اُن کی قبر آج بھی غزہ کے محلے ”الدرج“ میں موجود ہے،جس کے پڑوس میں ایک شان دار تاریخی مسجد” مسجدسیدہاشم “واقع ہے، غزہ کو اسی حوالے سے غزہ ہاشم کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے،مصر کی وادی سینا سے منسلک اور بحرمتوسط کے ساحل پر پھیلی ہوئی 40 کلومیٹر لمبی اور 10کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میں 15 لاکھ فلسطینی مسلمان بستے ہیں،1948ءمیں سرزمین فلسطین پر قبضہ کر کے جب صہیونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تو غزہ کی پٹی مصر کے زیرانتظام آ گئی جو 19 سال تک رہی،1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں دیگر وسیع علاقوں کے ساتھ ساتھ غزہ پر بھی صہیونی افواج نے قبضہ کرلیا اور غزہ ہاشم پر ابتلا ءکا ایک نیا دور شروع ہوگیا،1948ءکے بعد دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی مہاجرین کی بڑی تعداد غزہ منتقل ہوگئی تھی،آٹھ مہاجر خیمہ بستیاں وجود میں آئیں،یہودیوں نے بھی یہاں اپنی 25 جدید بستیاں تعمیر کیں اور غزہ کی یہ مختصر سی پٹی دنیا کی سب سے بڑی گنجان انسانی آبادی بن گئی،یہ مفلوک الحال آبادی سسک سسک کر جی رہی تھی کہ وہاں جہاد و مزاحمت سے آشنا ایک نئی نسل نے جنم لیا۔
شیخ احمد یاسین،ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی اور انجینیریحیی شہید جیسے راہ نماؤں نے اِس نسل کی تربیت کا بیڑا اٹھایا،اسلامی یونی ورسٹی غزہ جیسے شان دار تعلیمی ادارے قائم کیے اور بالآخر 1987ءمیں اسلامی تحریک مزاحمت ”حماس “وجود میں آگئی، ابتداءمیں پتھروں اور غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا گیا،معصوم بچوں نے کنکریوں سے دیوقامت ٹینکوں اور جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا،ابابیل صفت بچے گھروں سے نکلتے ہوئے باوضو ہوکر مساجد میں نوافل ادا کرتے اور صہیونی درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل آتے،بظاہر صہیونی اسلحے کے انباروں اور بے وسیلہ بچوں کا کوئی تقابل نہیں تھا،لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں شہدائ، زخمیوں اور قیدیوں کا نذرانہ دینے کے بعد بالآخر بے وسیلہ تحریک انتفاضہ ہی کامیاب ہوئی اور 1967ءسے غزہ پر قابض صہیونی افواج 2005ءمیں انخلا پر مجبور ہوگئی۔
جبکہ صہیونی اور امریکی منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی انخلا کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی آپس ہی میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں،صہیونی استعمار کے ساتھ مذاکرات و مصالحت کرنے والی الفتح تحریک جو خودکو فلسطینی عوام کا اکلوتا نمائندہ قرار دیتی رہی ہے،وہی1993ءکے بعد سے لے کر غزہ اور مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے سیاہ و سفید کی مالک تھی،صہیونی اور امریکی منصوبہ ساز اس اتھارٹی کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کو فلسطینی ”حکمرانوں“ کے ہاتھوں نیست و نابود کروانا چاہتے تھے،اس مقصد کیلئے اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا،مزید امداد کے لیے شرط یہ رکھی گئی کہ دہشت گردوں،یعنی مجاہدین کا قلع قمع کرو،یہ منصوبہ اور سازش شاید کامیاب ہوجاتی،لیکن جنوری 2006ءمیں وہاں کاپورا نقشہ ہی بدل گیا،انتخابات ہوئے اور حماس نے پہلی بار انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا،گو کہ امریکہ،اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی نے لاکھ دھمکیاں دیں کہ اگر حماس کو منتخب کیا گیا تو امداد بند کردی جائے گی،لیکن فلسطینی عوام نے بھاری اکثریت سے حماس ہی کو اپنا نمائندہ منتخب قرار دیا،حماس کی اس کامیابی سے اسرائیل اور اس کی پسندیدہ فلسطینی اتھارٹی مخمصے کا شکار ہوگئی کہ حماس کو حاصل دو تہائی اکثریت تسلیم کرے یا سب کچھ لپیٹ کر واپس 1993ءسے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی جائے،بہر حال طویل لیت و لعل کے بعد صدر محمود عباس کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے،منتخب ارکان اسمبلی اور ارکان حکومت سے حلف لینے کی ہدایات دی گئیں اور وزیراعظم اسماعیل ھانیہ اور ان کے ساتھیوں نے کام کرنا شروع کردیا،گو بظاہر ایک منتخب حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آگئی اورصہیونی انخلا کے بعد غزہ سے اسرائیلی قبضہ ختم ہوگیا تھا،لیکن عملاً پورا علاقہ نہ صرف صہیونی گھیرے میں تھا،بلکہ غزہ کے اندر بھی اسرائیلی افواج کی نمایندگی کرنے والے دندناتے پھرتے تھے،امریکہ اور اسرائیل نے منتخب حکومت کو ایک دن بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا اور حماس کی حکومت آ تے ہی تمام بیرونی امداد یکسر بند کردی گئی،اسرائیلی انتظامیہ نے تعاون کے بجاے عداوت کے نئے مورچے کھول لیے،حماس نے چیلنج قبول کیا اور کہا کہ امداد بند ہے تو بند رہے ہم اپنا جہاں خود پیدا کریں گے،پورے عالم اسلام کے عوام نے ان کے لیے مالی امداد جمع کرنا شروع کی، ایک خطیر رقم جمع ہوگئی،بعض حکومتوں نے بھی دست تعاون بڑھایا،جس سے دنیا کوخطرہ لاحق ہوگیا کہ حماس حکومت کامیاب ہوجائے گی،چنانچہ مسلمان ملکوں کے بینکوںپر پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی بینک فلسطینی حکومت کے اکاؤنٹ میں ایک پیسہ بھی منتقل نہیں کرے گا،جس کی وجہ سے کئی بینکو ں نے منتخب فلسطینی حکومت کے لیے جمع شدہ رقوم ضبط کرنے کا اعلان کردیا۔
لیکن حماس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ذمہ داران حکومت خود مالی اعانت لے کر غزہ جانے لگے،واضح رہے کہ غزہ کو باقی دنیا اور خود فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے ملانے والے راستوں کی تعدادسات ہے،ان میں سے چھ تو براہ راست اسرائیلی انتظام میں ہیں جو غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے ملاتے ہیں جبکہ ایک راستہ ”رفح گیٹ “ غزہ کو مصر سے ملاتا ہے،تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ یونہی گزرا،عالمی امداد بند،تمام بری راستے جزوی طور پر بند،صہیونی فوجی کارروائیوں کا وسیع پیمانے پر دوبارہ آغاز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الفتح تنظیم اور صدارتی افواج کے ذریعے حماس کے ساتھ باقاعدہ مڈبھیڑ کا اہتمام،آئے روز ذمہ داران قتل،مجاہدین گرفتار صہیونی دشمن کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے ہی بھائی بندوں کے ذریعے،اس دوران کئی مصالحتی کوششیں ہوئیں،حماس اور الفتح کے درمیان خانہ کعبہ میں ایک تفصیلی معاہدہ بھی طے پایا،لیکن ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ صدارتی افواج اور الفتح کے مسلح عناصر کے ذریعے منتخب حکومت اور حماس کے خلاف جارحانہ کارروائیاں پھر شروع ہوگئیں،اغوا،قتل اور جلاﺅگھیراﺅ کی یہ کارروائیاں عروج پر پہنچیں تو 14 جون 2007ءکو حماس کے جوانوں نے غزہ سے صدارتی کیمپ کے تمام دفاتر خالی کروا لیے،چند گھنٹوں کے اندر اندر غزہ میں صرف حماس ہی کی عوامی و عسکری قوت باقی رہ گئی،اس کے باوجود حماس نے اعلان کیاکہ یہ صرف ایک عارضی اورانتظامی کارروائی ہے،ہم معاہدہ مکہ کی اصل روح کے ساتھ اپنے تمام فلسطینی بھائیوں سے اشتراک عمل چاہتے ہیں،لیکن 14 جون کے واقعات کو بنیاد بناکر غزہ کو مکمل گھیرے میں لے لیا گیا،آج اس محاصرے کو چار سال ہورہے ہیں،غزہ جانے کے تمام راستے مکمل طور پہ بند ہیں،کوئی گاڑی،کوئی سواری اور کوئی شخص غزہ آ سکتا ہے،نہ وہاں سے جاسکتا ہے،اس مکمل بندش کی وجہ سے غزہ میں زندگی معطل ہوکر رہ گئی،ایندھن، پانی،ادویات،سامان خوردنوش فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے آتا تھا،وہ بند ہوگیا،غزہ سے کچھ سامان تجارت خصوصاً فرنیچر ملبوسات اور زیتون کی مصنوعات باہر جاتی تھیں وہ بھی بند ہیں،غزہ سے لاکھوں افراد روزانہ محنت مزدوری کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاتے تھے،ان کے جانے آنے پر پابندی ہے،غرض کہ اس وقت غزہ چاروں طرف سے سیل بند اور مقفل ہے،چالیس کلومیٹر طویل اوردس کلومیٹر عریض پٹی بستے والی پندرہ لاکھ کی آبادی کیلئے جینے کا ہر سامان حرام قرار دے دیا گیا ہے،27دسمبر2008ءکو اسرائیل نے ان پر24 روزہ مہیب جنگ مسلط کی،سفید فاسفورس بم سمیت،جلاکر بھسم کردینے والا ہر نوع کا بارود ان پر برسایا گیا۔
لیکن انھیں ان کے موقف سے دست بردار نہیں کرایا جاسکا،اہلِ غزہ نے امریکا و یورپ کی مکمل سرپرستی اور اکثر پڑوسی عرب ملکوں کی خیانت و معاونت سے حملہ آور ہونے والے صہیونی دشمن کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا،گو کہ غزہ کا حصار اور ناکہ بندی جنگ سے پہلے بھی جاری تھی لیکن 24 روزہ تباہ کن جنگ کے بعد محاصرہ شدید تر کردیا گیا،ایسے میں اہلِ غزہ کے سامنے زیرزمین راستوں کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا،تین اطراف میں تو ”اہلِ ایمان کے بدترین دشمن“ یہودیوں کا گھیرا ہے،چوتھی جانب مصر کی وادیِ سینا ہے،غزہ اور مصر کے درمیان 10کلومیٹر کی سرحد،اونچی اونچی باڑیں لگاکر بند کر دی گئی ہے،اس صوتحال میں فلسطینی اور مصری رفح کے شہریوں نے لمبی لمبی سرنگیں کھود کر15لاکھ انسانوں کے جسم و جان کا رشتہ بحال رکھنے کی کوششیں شروع کر دیں،عالمی طاغوت اور اس کے پالتو حکمرانوں کو یہ بات سب سے زیادہ دکھ دینے لگی،چنانچہ امریکی صدر بش نے جاتے جاتے اسرائیلی اور ملت فروش مصری حکمرانوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ تیار کیا،جو شاید انسانی تاریخ کا انوکھا تعمیراتی منصوبہ تھا جس کے تحت 10کلومیٹر لمبی اور20سے 30میٹر گہری ایک فولادی دیوار زمین کے اندر تعمیر کی جارہی ہے،یعنی تقریباً 5 یا6منزلہ عمارت کی بلندی جتنی گہری دیوار، بحالی مہاجرین کے لیے قائم کردہ اقوامِ متحدہ کے ادارے انروا (UNRWA) کی مصر میں نمایندہ کیرین ابوزید نے اس فولادی دیوار کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ”یہ انتہائی مضبوط فولادہے جسے خصوصی طور پر امریکا میں تیار کیا گیا ہے،اس پر مختلف دھماکا خیز مواد چلا کر اس کی مضبوطی کا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔“ یعنی اس میں نقب لگانا یا بم دھماکے سے اس میں سوراخ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں،پھر مزید حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے اس زیرزمین پوری آہنی فصیل کو برقی رَو سے جوڑ دیا گیا ہے،ساتھ ہی مزید ایسے آلات لگا دیے گئے ہیں کہ کہیں سے اگر اس میں شگاف ڈالا جائے توفوراً اس کا سراغ لگایا جاسکے،اس فولادی دیوار کے علاوہ فلسطینی علاقے کی جانب ایک خطرناک آبی دیوار قائم کی جارہی ہے،یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک اور ناقابلِ یقین اور ہلاکت خیز منصوبہ ہے،اس منصوبے کے مطابق بحر متوسط سے ایک زمین دوز موٹا پائپ فولادی دیوار کے ساتھ ساتھ بچھایا جا رہا ہے،اس پائپ سے ہر 30سے 40 میٹر کے فاصلے پر تقریباً 35میٹر گہرا،چھے انچ موٹا پائپ زمین میں اتارا جارہاہے،ان عمودی پائپوں میں لاتعداد سوراخ کیے گئے ہیں،طاقت ور پمپس کے ذریعے جب سمندر سے بڑے افقی پائپ اور وہاں سے گہرے عمودی پائپوں میں پانی چھوڑا جائے گا تو پورا علاقہ دلدل کی صورت اختیار کرجائے گا اور وہاں کسی کے لیے سرنگیں کھودنا ممکن نہ رہے گا۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ عالمی اقتصادی بحران اور دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کا رونارونے والوں کے پاس،مفلوک الحال،بھوکے اور محصور فلسطینیوں کو سرنگیں کھودنے سے روکنے کے لیے شیطانی ذہنیت ہی نہیں اربوں ڈالر کا وافر خزانہ بھی موجود ہے، چونکہ فیصلہ امریکی اور اسرائیلی دباؤ پر ہوا ہے،اس لیئے مصر اسے قومی مصلحت قرار دیتے ہوئے تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچارہا ہے،اس بارے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ موقف مصر کی جامعہ ازہر کا ہے جس کے درباری مفتیوں نے فولادی اور آبی دیوار کوجائز قرار دیا ہے کہ یہی حکم آقا تھا،امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے اسرائیل نے غزہ میں تباہی و بربادی کا مکروہ کھیل کھیلا ہے،تب سے اُس نے غزہ پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں،حتیٰ کہ باہر سے کھانے پینے کے سامان کی بھی ایک حد مقرر ہے اور اس سے زیادہ سامان غزہ میں نہیں لے جایا جاسکتا،غزہ میں تعمیر نو کے لئے تعمیراتی سامان کی اشد ضرورت ہے، لیکن اسرائیل نے اس طرح کے سامان پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے،غزہ کی مسلمان آبادی ایک محصور شہر کا منظر پیش کر رہی ہے اور وہاں کا ہر دن اذیت ناک ہے۔
قارئن محترم غزہ میں زندگی کی آخری رمق بچانے کی خاطر کھودی گئی سرنگیں بند ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود اہلِ غزہ کو یقین ہے کہ اللہ اُن کے لیے کوئی دوسرا راستہ کھول دے گا،ان کا یہ یقین عنقریب حقیقت میں بدلنے والا ہے،کیونکہ ترکی اور دنیا کے کچھ اہل جرات افراد نے کمر ہمت کس لی اور طے کرلیا ہے کہ وہ اہل غزہ کو اسرائیل کے ظلم و بریت سے نجات دلاکر ہی رہیں گے،چنانچہ یہ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر عازم غزہ ہوئے،یہ وہ لوگ تھے جنہیں اسرائیلی خطرے کا بالکل درست اندازہ تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہیں پہلے سے معلوم تھا کہ اسرائیل درندگی کے کس مقام تک جاسکتا ہے،لیکن اس کے باوجود اُن سے اپنے بے بس بھائیوں اور بہنوں کی مظلومیت دیکھی نہیں گئی اوریہ لوگ بحری جہازوں کے قافلے فریڈم فلوٹیلا (جس پر پاکستان، آسٹریلیا،آذربائیجان،اٹلی،انڈونیشیا،آئرلینڈ،الجیریا،امریکا،بلغاریہ،بوسنیا،بحرین،بیلجئم،جرمنی،جنوبی افریقہ،ہالینڈ،برطانیہ،یونان، اردن،کویت،لبنان،ماریطانیہ،ملائیشیا،مصر،مقدونیہ،مراکش،ناروی،نیوزی لینڈ،شام،سربیا،اومان،چیک ری پبلک،فرانس،کوسووا،کینیڈا، سویڈن،ترکی اور یمن کے سات سو سے زائد شہری سوار تھے) فلسطینیوں کے لیے دس ہزار ٹن امدادی سامان لے کر غزہ روانہ ہوئے،گو کہ ان کی یہ کوشش اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی،لیکن ان کے اس اقدام نے دنیا کے سامنے امریکا کی ناجائز اولادا سرائیل کا مکروہ چہرہ اور ننگی جارحیت ضرور آشکارہ کردی۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اسرائیل نے امریکہ کی شہ اور اسکی سرپرستی میں اسرائیلی ریاست عربوں کے قلب میں قائم کرکے فلسطینی عوام کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کے آگے بند باندھ کر فلسطین کی آزاد ریاست کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے سے روکنا ہے،امریکی شہ پر اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بے بس اور محصور شہریوں کی امداد کیلئے جانے والے قافلے پر دھاوا بولنا،درحقیقت اُن امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہے جو پوری مسلم امہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اسکے دل میں موجود ہیں،اس صورتحال میں کیا اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اسلامی کانفرنس کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ امریکہ بھارت،اسرائیل کے ہاتھ روکنے کیلئے متحرک کردار ادا کرے اور اپنی روایتی غفلت کا لبادہ اتار پھینکے،اسرائیلی بحریہ کی جانب سے غزہ کے شہریوں کو امداد سے محروم کرنے کی خاطر پورے امدادی قافلہ کی لوٹ مار اور قتل عام ایسا واقعہ ہے جس کی صرف مذمت پر اکتفا کرنا ہی کافی نہیں،یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی کا آغاز اسرائیل ہی کی وجہ سے ہوا،بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے حقوق کو ہمیشہ نہایت بے دردی سے پامال کیا اور کبھی کسی قاعدے قانون کی پروا نہیں کی، جہازوں کا اغوا اور خودکش حملے اسرائیلی ظلم و بربریت ہی کا نتیجہ ہیں،امریکا اور اس کی اتحادی بڑی طاقتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کے اندوہناک واقعات فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم ہی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے،بین الاقوامی سمندر میں جارحیت کا تازہ ترین واقعہ اسرائیلی بربریت اور درندگی کا کھلا ثبوت ہے۔
ہمارے خیال میں یہی مناسب وقت ہے کہ خطہ میں ایک الگ اسلامی بلاک تشکیل دے کر طاغوتی طاقتوں کا راستہ روکا جائے،اس وقت اتفاق سے ترکی اور ایران بھی اس اتحاد کے خواہاں ہیں،دیکھا جائے تو اسرائیل کے تازہ ترین حملے کا اصل شکار تو ترکی بنا ہے،ہم سے زیادہ صاحب ایمان ترکی والے نکلے،اس خطرے کے باوجود کہ اسرائیل فوجی کارروائی کرے گا،غزہ کے محصور فلسطینی باشندوں کی امداد کے لیے بحری جہاز وں میں خوراک اور دوائیں بھر کر بھیج دیں،ساتھ ہی سینکڑوں امدادی کارکن بھی روانہ کئے اور استنبول کی بندرگاہ پر لاکھوں ترک باشندوں نے اس قافلے کو الوداع کہا،اس کے باوجود کہ مسلم ممالک میں ترکی وہ واحد ملک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے اورترکی ہی مسلم دنیاکا وہ پہلا مسلم ملک ہے جس نے1948 ءمیں اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے،لیکن 2008 ءکی غزہ کی تباہ کن جنگ اور ظالمانہ محاصرہ کے بعد ترکی کے اسرائیل سے تعلقات پر کشیدگی کے بادل چھا گئے ہیں،ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے2009 ءمیں ڈاووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں غزہ پر اسرائیل کے حملہ اور مظالم کی سخت مذمت کی تھی،اب غزہ کے عوام کے لیے ترکی کے امدادی بحری بیڑہ پر اسرائیل کے حملہ کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کے اس حملہ کو دہشت گردی قرار دیا ہے،ترکی کے اس اقدام کے بعد یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے حملہ کی سخت مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔
اسی دباؤ کی وجہ سے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے اسرائیل کے اس حملہ کو قتل عام قرار دیا ہے اور اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جس طرح اسرائیلی حملہ کی مذمت کی ہے اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اس نے اسرائیل کی شکست پر تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے،دوسری طرف ترک وزیراعظم نے “قونیہ” شہر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” بیت المقدس کا مستقبل استنبول اور غزہ کا انقرہ سے وابستہ ہے،ترکی کے لیے جہاں استنبول اور انقرہ کا دفاع ضروری ہے،وہیں غزہ اور بیت المقدس کا بھی ضروری ہے،انہوں نے عہد کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہیں انہیں اس سلسلے میں پوری دنیا کی طرف سے تنہائی کاسامنا کیوں نہ کرنا پڑے،انہوں نے حماس کو فلسطینیوں کی نمائندہ،مزاحمتی اور وطن کی دفاع میں سرگرم تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حماس کو دہشت گرد قرار دینے والوں کے اپنے دامن بے گناہوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں“قارئن محترم یہ وہی ترکی ہے جس کی فوج ملک کی سیکولر پہچان کی نگہبان سمجھی جاتی ہے اور اس نے ملک میں اسلامی طرز زندگی کو بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا،لیکن حالیہ سالوں میں سیکولر ترکی نے ایک نئی انگڑائی لینی شروع کی ہے اور اب یورپی یونین میں شرکت کے لیے بھیک مانگتا ترکی ایک نئے روپ میں سامنے آنا شروع ہو گیا ہے،وزیر اعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کی اسلام پسند پارٹی ترکی کی سیاست پر حاوی نظر آتی ہے،فوج کی جانب سے تشویش کے باوجود عوام میں اسلامی تشخص مقبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب عالمی منظر نامے میں اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے،اس صورحال میں ہم دعا کرتے ہیں کہ ترکی اسلام دشمنوں کو پیغام دینے کا سلسلہ جاری رکھے اور خلاف عثمانیہ کے دور میں اسلام کا یہ مرکز ایک پھر اسلامی قوت کا گڑھ بن کر ابھرے،آج اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترکی نے غزہ کے 15لاکھ فلسطینی مسلمان جو شعب ابی طالب میں محصور بنو ہاشم کی طرح روٹی،پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کیلئے ترس رہے ہیں،کیلئے زہیر بن اُمیہ( جنھوں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ہم تو انواع و اقسام کے کھانے کھائیں،طرح طرح کے کپڑے پہنیں اور بنوہاشم ہلاک ہوتے رہیں،اُن سے ہر طرح کی خرید و فروخت بند رہے،نہیں.... خدا کی قسم..... نہیں،میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا،جب تک کہ بنوہاشم سے بائیکاٹ کی ظالمانہ دستاویز پھاڑ نہیں دی جاتی) کا کردار اداکرکے اہل غزہ کیلئے اسرائیلی ظلم و بریت سے نجات کی نئی راہیں متعین کردی ہیں۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.