You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سیرت و کردار حضور غوث اعظم رحمہ اللہ
راقم الحروف:۔
مُحمد بُرہان اُلحق جلالیؔ (جہلم)
(ڈبل ایم۔اے،بی۔ایڈ،بی ایم ایس ایس،ٹی این پی،آئی ایس ٹی ٹی سی)
مصنف و مئولف:۔مقام والدین،صیام السالکین(رمضان روزے اور ہم)
سرکار بغداد حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسم مبارک ” عبدالقادر” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت ” ابو محمد “اور القابات” محی الدین ، محبوب سبحانی ، غوث الثقلین ، غوث الاعظم ” وغیرہ ہیں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ٤٧٠ ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور ٥٦١ ھ میں بغداد شریف ہی میں وصال فرمایا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار پر انوار عراق کے مشہور شہر بغداد میں ہے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والد ماجد کی نسبت سے حسنی ہیں سلسلۂ نسب یوں ہے سیّد محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن سیّد ابو صالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّد ابو عبداللہ بن سیّد یحیٰی بن سید محمد بن سیّد داؤد بن سیّد موسیٰ ثانی بن سیّد عبداللہ بن سیّد موسیٰ جون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدامام حسن مثنیٰ بن سیّد امام حسن بن سیّدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سیّد ہیں۔(بهجة الاسرار، معدن الانوار، ذکر نسبه، ص۱۷۱)
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی سیرت و زندگی سراپا تقویٰ تھی،آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک گوشہ کتاب و سنت کی پیروی میں گزرا ،آپ کی زندگی کے تمام گوشے اور شعبے اتباع شریعت اور اطاعت رسول ﷺ سے معمور تھے-
آپکی سیرت و کردار کا مختصرا جائزہ لیتے ہیں۔
استقامت:۔
پندرہ سال تک ہررات میں ختم قرآن مجید : حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے(بهجة الاسرار، ذکر فصول من کلامه ۔۔۔ الخ، ص۱۱۸) ۔ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔‘‘(تفريح الخاطر، ص۳۶)
چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا فرمائی : شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرما کر دو رکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے۔”(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعالیٰ عليه، ص۱۶۴)
چالیس سال تک استقامت سے بیان فرمایا : سیدی غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فرزندِ ارجمند سیدنا عبدالوہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ۵۲۱ھ سے ۵۶۱ھ تک چالیس سال مخلوق کو وعظ و نصیحت فرمائی۔(بهجة الاسرار، ذکر و عظه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۸۴)
مہمان نوازی :
آپ اپنے مہمانوں کی کمال مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔
روزانہ رات کو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دسترخوان بچھایا جاتا تھا جس پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مہمانوں کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے، کمزوروں کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، بیماروں کی عیادت فرماتے، طلب علم دین میں آنے والی تکالیف پر صبر کرتے۔(بهجة الاسرار، ذکرشي من شرائف اخلاقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۲۰۰)
غریبوں اورمحتاجوں پر رحم :
آپ نے ساری زندگی غریبوں محتاجوں کی مدد کی ان پر رحم کی تعلیم دی۔
شیخ عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ایک مرتبہ حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ’’میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں۔” پھرارشاد فرمایا: “میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے(کہ غریبوں اور محتاجوںمیں تقسیم کردوں اوربھوکے لوگوں کو کھانا کھلادوں۔)(قلائد الجواهر، ملخصاًص۸)
سخاوت:
آپ سخاوت میں بھی بے مثال تھے
ایک دفعہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک شخص کو کچھ مغموم اور افسردہ دیکھ کر پوچھا: “تمہارا کیا حال ہے؟” اس نے عرض کی: ’’حضور والا! دریائے دجلہ کے پار جانا چاہتا تھا مگر ملاح نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔” اتنے میں ایک عقیدت مند نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر تیس دینار نذرانہ پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وہ تیس دینار اس شخص کو دے کر فرمایا: “جاؤ! یہ تیس دینار اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ “آئندہ وہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرے۔”( اخبار الاخيار، ص۱۸)
روشن ضمیری : حضرت امام شیخ ابو البقا مکبری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں ایک روز حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا، میں پہلے کبھی حاضرنہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام سنا تھا، میں نے دل میں کہا کہ ’’اس مجلس میں حاضر ہو کر اس عجمی کا کلام سنوں؟‘‘ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام شروع ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا کلام موقوف فرما دیااور فرمایا: ’’اے آنکھوں اور دل کے اندھے! تو اس عجمی کے کلام کو کیا سنے گا؟‘‘ تو میں نہ رہ سکا یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے منبر کے قریب پہنچ گیا پھر میں نے اپنا سر کھولا اور بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں عرض کیا: ’’یا حضرت! مجھے خرقہ پہنائیں۔‘‘ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے خرقہ پہنا کر ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللہ ! اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے تمہارے انجام کی خبر نہ دی ہوتی تو تم ہلاک ہو جاتے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر علمه و تسمية بعض شيوخه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۲۱۱)
اوصاف حمیدہ:۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفٰی ۱۰۵۲ ھ) غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی سیرت کی ایک جھلک پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ''بعض مشائخ وقت نے آپ کے اوصاف میں لکھا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بڑے با رونق ،ہنس مکھ ،خندہ رو،شرمیلے،نرم طبیعت ،کریم الاخلاق ،پاکیزہ اخلاق ، پاکیزہ اوصاف اور مہربان و شفیق تھے ،ہمنشیں کی تعظیم و تکریم کرتے اور غمزدہ افراد کو دیکھ کر امداد فرماتے تھے،مزید لکھتے ہیں ، ہم نے آپ جیسا فصیح و بلیغ کسی کو نہیں دیکھا ،بعض بزرگوں نے آپ کا اس طرح وصف بیان فرمایا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بکثرت رونے والے ،اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے ۔ خوفِ خدا ایمان کا لازمی تقاضہ :۔ قرآن میں فرمانِ الٰہی ہے ، پارہ ۲۹ سورہ ملک آیت ۱۱ اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ لَھُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَرِیْمٌ (ترجمہ کنز الایمان )بے شک وہ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(تفسیر روح البیان )میں ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سینے سے بھنی ہوئی کلیجی کی طرح خوشبو آتی تھی ، حضور ﷺ تہجد میں اتنا روتے کہ سینہ مبارک سے ہانڈی کھولنے کی طر ح آواز آتی تھی ۔ خوف خدا ایمان کی علامت ہے:۔یہ وصف آپ کے اندر بہت زیادہ تھی ،نیک اخلاق ،پاکیزہ اوصاف ، بد گوئی سے بہت دور بھاگنے والے اور حق کے سب سے زیادہ قریب تھے ،کسی سائل کو واپس نہ فرماتے،آپ کی ہر دعا بہت جلد قبول ہو جاتی تھی ،اللہ تعالیٰ کی توفیق آپ کی راہنما اور تائید الٰہی آپ کی معاون تھی ،سچائی آپ کا وظیفہ تھا ،آپ انتہائی عبادت گزار تھے ،اللہ رب العزت قرآن مقدس میں اپنے محبوب بندوں سے محبت بھرے انداز میں ارشاد فرماتا ہے ،پارہ ۲ سورہ بقرہ آیت میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری نہ کرو ۔ سچ اور حق تو یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود حقیقی کی یاد میں ہمہ تن مصروف رہے اور بندے کا خدا کو یاد کرنا ہی اصل زندگی ہے ،جہاں تک تعلق ہے خدا کی یاد کا اور اس کے ذکر کا تو کائنات کی ہر مخلوق اپنے اپنے طور پر ذکر و تسبیح میں مشغول ہے اور بندے (انسان ) کو بھی اس کی عبادت کرتے رہنے کا حکم ہے یہ بات بقیہ تمام مخلوق کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ خدا کو یاد کرو لیکن بندہ انسان ہے غفلت میں پڑ جاتا ہے اپنے رب کو بھول جاتا ہے ،تو اس کی غفلت کو دور کرنے کیلئے کلام مجید میں باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے ذ کر کی طرف متوجہ کیا ،جب ہی تو یاد الٰہی میں زندگی گزارنے والے خدا کے مقبول بندے ہو گئے یہ سب بندے اللہ کی یاد میں اس قدر مصروف رہے کی دنیا کے ہر کونے میں اب ان کو جانا پہچانا جاتا ہے حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی ،میرے ایسے بعض بندے ہیں کہ وہ مجھے دوست رکھتے ہیں ،اور میں ان کو دوست رکھتا ہوں ،وہ میری طرف دیکھتے ہیں ،میں ان کی طرف دیکھتا ہوں اس نبی علیہ السلام نے کہا کہ خداوند ان کی علامت (پہچان) کیا ہے ؟ کہا آفتاب کے غروب کو وہ ایسا دوست رکھتے ہیں جیسے پرندے اپنے گھونسلوں کو جب رات پڑ جاتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے ،فرش بچھائے جاتے ہیں اور ان کو بند لگائے جاتے ہیں ،دوست اپنے دوست کے ساتھ خلوت کرتا ہے ،تو وہ مردانِ خدا اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اللہ کی عبادت کیلئے اور اپنے چہروں کو فرش بناتے ہیں یعنی سجدے کرتے ہیں ،مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں بعض چلاتے روتے ہیں بعض آہیں ما رتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں اور بعض کھڑے ہوتے ہیں میری عبادت کرتے ہیں (بہجۃ الاسرار جلد اول صفحہ۸ ۵۔۵۷)
پیران پیرحضورسیدناغوث اعظم شیخ عبدالقادرجیلانی ؒکا کرداروعمل سیرت مصطفیﷺکا مظہرتھا، اولیاء کرام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کوہدایت کاراستہ دکھایابلکہ معاشرتی امن وسکون اور احترام انسانیت کا درس بھی دیا ۔ مسلم اُمہ کودرپیش خطرات اور چیلنجز سےاولیاء و صوفیاء کے افکار کی روشنی میں نبٹا جا سکتا ہے۔
اللہ ہمیں اولیاءکرام کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق دے آمین
اگر اس تحریر میں کہیں بھی مجھ سے غلطی کوتاہی ہوئی ہو تو بارگاہ خداوندی میں معافی کا طلب گار ہوں۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.