You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
صحابۂ کرام نے ولادت رسولﷺکا جشن کیوں نہیں منایا؟
***************************************
از: عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
**********************************
قرآن کریم میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’تم فرمائو اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں‘‘۔(پ۱۱،آیت۵۸،سورۂ یونس)اس آیت مبارکہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ ابن عباس،حضرت ابوجعفر الباقر،حضرت قتادہ،حضرت مجاہد،امام آلوسی،امام ابوحیان اندلسی،امام ابن جوزی،امام طبرسی اور کئی جید علمائے کرام نے فضل سے مراد قرآن اور رحمت حضور ﷺکی ذات کوقراردیاہیں۔ امام جلال الدین سیوطی نے فضل اور رحمت دونوں حضورﷺ کی ذات ہی کو قرار دیا۔مصطفی کریمﷺ کی رحمت کاتذکرہ توخود قرآن کریم بیان کررہاہے یہ فرماکر’’اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔‘‘(سورۂ انبیائ،پ۱۷،آیت ۱۰۷)گویاکہ اس آیت میں حصول فضل ورحمت پر خوشی وجشن منانے کاخصوصی حکم ہے ۔چنانچہ جونہی ماہ ربیع النور شریف کاآغازہوتاہے غلامان رسولﷺ ولادت رسولﷺکی خوشی میںدیوانہ وار مگن ہوجاتے ہیں،چہارجانب جشن کاسماع ہوتاہے اورایسا کیوں نہ ہوکہ کائنات کی ساری خوشیاں، جملہ مسرتیں اور شادمانیاں اسی ایک خوشی پرقربان ہوجائیں، پھر بھی اس یوم سعید کے منانے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ مندرجہ بالاارشاد قرآنی کی رو سے ہمیں اس نعمت عظمیٰ پر خوشی منانے کاحکم دیا اور فرمایاکہ اللہ کے فضل اور رحمت پر اظہار مسرت کرو ۔ چنانچہ جب پیغمبراسلام ﷺکی ولادت کامہینہ آئے تو ایک سچے مسلمان کی قلبی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ خوشیاں منانے کے لیے اس کا دل بے قرار اور طبیعت بے چین ہوجاتی ہے اور اسے یوں لگتا ہے کہ اس کے لئے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلاد رسولﷺ کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے، وہ یوں سمجھتا ہے کہ اس دن کائنات کی ساری خوشیاں سمٹ کر اس کے دامن میں آگری ہیں ۔ اس سے بڑھ کر اس کے لئے مسرت وشادمانی کااور کون سا موقع ہوگا۔وہ تو اس خوشی سے بڑھ کر کائنات میں کسی خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
عاشقان مصطفیﷺاپنے گھروں پر قمقمے لگاکر،پرچم لہرا کر،گلی کوچے،محلے اور بستیوں کوسجاکر،نئے لباس پہن کر اور نذرونیاز کااہتمام فرماکر اپنی خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ مگر چند عقل وخرد سے پیدل افراد ہر سال یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیاعید میلادصحابۂ کرام نے بھی منایاتھا؟انھیں سمجھنا چاہئے کہ وقت ،حالات اور ادوارکی تہذیب وثقافت کے مطابق انسان خوشیاں مناتاہے ۔اس دور کی ثقافت ہی ایسی نہیں تھی کہ وہ بھی ایسے جشن کااہتمام کرتے جیسا کہ موجودہ دور میں ہوتاہے۔صحابۂ کرام نے صرف میلادہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ایسے نہیں منائیں جیسا کہ آج ہر مکتبۂ فکر کے مسلمان مناتے ہیں۔مثلاً: مدینۂ منورہ میں تشریف آوری کے بعد حضورﷺ نے انصار ومہاجرین کے مشورہ سے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا،اسلامی تاریخ میں یہ عظیم معاہدہ’’میثاق مدینہ‘‘کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔اس دن اسلامی ریاست کی باقاعدہ تشکیل ہوئی اورحضورﷺ ریاست مدینہ کے آئینی حکمراں بنے۔مسلمانوں کے لئے یہ موقع عظیم خوشی کادن تھا مگر انہوں نے یوم میثاقِ مدینہ منانے کاکوئی اہتمام اس لئے نہ کیاکہ ایسا کرناان کے کلچرمیں شامل نہ تھا۔اسی طرح مسلمانوں نے جب جنگ بدرمیں فتح پائی جسے قرآن نے ’’یوم الفرقان‘‘ قراردیا۔یہ دن بھی دور صحابہ میں سال بہ سال باربارآتا رہامگر اس دن کومنانے کاان میں رواج نہیں تھا۔اسی طرح فتح مکہ جسے قرآن نے ’’فتح مبین ‘‘قرار دیا،اتنی بڑی خوشی پربھی صحابہ نے کسی طرح کاکوئی جشن کااہتمام نہیں کیاکیونکہ یہ اس وقت کی ثقافت میں شامل نہیں تھا۔شب قدر جو’’یوم نزول قرآن‘‘ ہے اس دن کو بھی صحابۂ کرام اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے منانے کاکوئی بھی اہتمام نہیں کیا۔اس طرح کی اور بھی روایتیں جمع کی جاسکتی ہیں۔گویاکہ ان روایتوں سے یہ بات اجاگر ہوتی ہیکہ ایسا سوال آج کے مسلمانوں سے پوچھنااور انھیں ذہنی الجھن میں مبتلاکرناخالص جہالت ،نادانی اوررسول دشمنی ہے۔یہ سوال قائم کرنے والے کیابتاسکتے ہیکہ کہ کسی صحابی نے شادی کاایسااہتمام فرمایاجس طرح آج مسلمانوں میں رائج ہے،کیاکسی صحابی سے یہ بچے کی ولادت کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرنااور دعوت کا اس طرح اہتمام کرناثابت ہے جس طرح آج مسلمانوں کارواج ہے،کیا صحابۂ کرام نے اس طرح یوم آزادی منایاتھاجس طرح آج منایاجاتاہے،کیاکسی صحابی نے درس وتدریس کی محفل میںاس دور کے کسی مذہبی پیشواکوبلایاتھاجیسے آج کچھ لوگ اپنے سالانہ جلسے میں پنڈتوں کوبلاتے ہیں،کیاکسی صحابی نے کسی غیر مسلم خاتون کومسجد کادورہ کروایاتھاجس طرح آج نام نہاد مسلمان نیم برہنہ خاتون کو مسجدوں کادورہ کرواتے ہیں،کیاکسی صحابی نے اپنی کسی ذاتی کامیابی پر اس طرح آتش بازی کی تھی جیسے آج ذاتی خوشی پر پٹاخے پھوڑے جاتے ہے یعنی تم ذاتی خوشی کے لئے خلاف شرع عمل کروتو جائزومستحسن اور غلامان رسولﷺ اللہ کے محبوب کی آمد پر اللہ ورسول کے حکم سے آمد خیرالانام ﷺمنائیں توناجائز ؎
دامن کوذرادیکھ ذرابند قبادیکھ
غرضیکہ کئی ایسے کام تھے جنھیں صحابۂ کرام نے نہیں کیااور آج ہم کرتے ہیں۔تو ایسا بھدّاسوال صرف میلادشریف کے موقع پر قائم کرنا ہرگز ہرگزدرست نہیں۔لہٰذاعاشقان مصطفیﷺسے التماس ہیکہ بے جاولغوباتوں پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنے آقاکامیلاد خوب دھوم دھام سے منائومگرہاں!!اس بات کاخاص خیال رکھیں کہ کوئی غیر شرعی امر نہ ہونے پائیں۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.