You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قرآن مجید پر نقطے اور اعراب لگانے کی تاریخ اور تحقیق
شروع میں جب قرآن مجید کو لکھا جاتا تھا تو قرآن مجید کے حروف پر نقطے نہیں لگاۓ جاتے تھے اور نہ حرکات ، سکنات اور اعراب لگاۓ جاتے تھے اور نہ رموز اوقاف تھے ،
کیولکہ اہل عرب اپنی زبان اور محاورہ کی مدد سے نقطوں اور حرکات ، سکنات اور اعراب کے بغیر بالکل صحیح قراں پڑھ لیتے تھے اور نہ انھیں کسی فقرہ کو ملانے یا اس پر وقف کرنے کے لیے رموز اوقاف کی ضرورت تھی ، وہ اہل زبان تھے اور ان تمام چیزوں سے مستغنی تھے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو مصحف تیار کرایا تھا، وہ بھی ان تمام چیزوں سے معری تھا ، پھر جیسے جیسے اسلام پھیلتا گيا اور غیر عرب لوگ مسلمان ہوتے چلے گۓ اور وہ اہل زبان نہ ہونے کی وجہ سے قراءت میں غلطیاں کرنے لگے تو پھر قرآن مجید کی کتابت میں ان تمام چیزوں کا اہتمام اور التزام کیا گیا ۔
سب سے پہلے قرآن مجید کے حروف پر نقطے لگاۓ گۓ ، پھر حرکات ، سکنات ، اور اعراب لگاۓ گۓ ، پھر قرآن مجید کو صحیح پڑھنے کے لیے قراءت اور تجوید کے قواعد مقرر کیے گۓ اور عام لوگوں کی سہولت کے لیے قرآن مجید کی آیتوں پر رموز اوقاف کو لکھا گیا ۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
عبدالملک مروان نے مصحف کے حروف کو متشکل کرنے اور ان پر نقطے لگانے کا حکم دیا ، اس نے اس کام کے لیے حجاج بن یوسف کو شہر واسط سے فارغ کر دیا ۔اس نے بہت کوشش سے اس کام کو انجام دیا اور اس میں احزاب کا اضافہ کیا اس وقت حجاج اعراق کا گورنر تھا ۔ اس نے حسن اور یحیی ابن یعمر کے ضمہ یہ کام لگایا ، اس کے بعد واسط میں ایک کتاب لکھی ، جس میں قراءت کے متعلق مختلف روایات کو جمع کیا ، بڑے عرصہ تک لوگ اس کتاب پر عمل کرتے رہے ، حتی کہ ابن مجاہدنے قراءت میں ایک کتاب لکھی ۔
زبیدی نے کتاب الطبقات میں مبرد کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ
جس شخص نے سب سے پہلے مصحف کے حروف پر نقطے لگاۓ ، وہ ابو الاسود الدولی (متوفی 69ھ) ہیں اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ابن سیرین کے پاس ایک مصحف تھا جس پر یحیی ابن یعمر نے نقطے لگاۓ
========================
(بتیان القرآن)(الجامع الاحکام القرآن ج1 ص 63 مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران1378 ھ)
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں :
ابوالاسود الدولی وہ پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے علم نحو کو وضع کیا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ
کلام کی کل تین قسمیں ہیں : اسم ، فعل اور حرف، اور فرمایا : اس پر تم قواعد تحریر کرو ،
ایک قول یہ ہے کہ ابوالاسود عراق کے گورنر، ذیاد کے بچوں کو پڑھاتا تھا ، ایک دن وہ ذیاد کے پاس گیا اور کہا : اللہ امیر کی خیر کرے ، میں دیکھتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ بکثرت عجم مخلوط ہو گۓ ہیں اور ان کی ذبان متغیر ہو گئی ہے ، کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں ان کے لیے ایسے قواعد تحریر کر دوں ، جس کی بنا پر وہ درست طریقہ سے عربی بولیں ؟
ذیاد نے کہا : نہیں ،
پھر ایک دن اک شخص نے کہا : توفی اہونا وترک بین ہمارا باپ فوت ہو گیا اور اس نے بیٹے چھوڑے ہیں ، گویہ اس نے عربی ذبان میں گرائمر کی غلطی کی ۔
تب ذیاد نے کہا : ابو الاسود کو بلاؤ ، جب وہ آیا تو اس نے کہا :
لوگوں کے لیے وہ قواعد تحریر کرو کہ جن سے میں نے پہلے منع کیا تھا۔
ایک قول یہ ہے کہ ذیاد نے خود ابولاسود سے اس علم کی فرمائش کی ،لیکن اس نے ذیاد سے معذرت کر لی ، پھر ایک دن ابولاسود نے ایک شخص سے سنا ، وہ سورۂ توبہ کی آیت غلط پڑھ رہا ہے : ان اللہ بری ءمن المشرکین و رسولہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں –
اس آیت می رسولہ میں رسول پر پیش ہے ، وہ شخص زیر پڑھ رہا تھا اور اس سے یہ معنی ہو جاتا ہے : اللہ مشرکوں اور بپنے رسول سے بیزار ہے ۔ العیاذ باللہ ! تب ابو الاسود، ذیاد کے پاس گيا اور کہا : میں اب عربی قواعد لکھنے پر تیار ہوں ، اس وقت ابوالاسود نے زبر کی علامت حرف کے سامنے ایک نقطہ قرار دیا اور زیر کی علامت حرف کے نیچے ایک نقطہ قرارا دی ۔ ابو الاسود 69ھ میں بصرہ کی طاعون کی بیماری میں فوت ہوا اس کی عمر 85سال تھی
===================
(دفیات الاعیان ج2 ص 535 – 539)
علامہ زرقانی لکھتے ہیں :
ایک عرصہ تک حرکات اور اعراب کے لیے یہ علامات رائج رہیں ، لیکن چونکہ ان علامات کا نقطوں کے ساتھ اشتباہ تھا ، اس لیے پھر زبر زیر اور پیش کے لیے ، اس طرح کی علامات مقرر کر دی گئیں۔
=================
(مناہل العرفان ج 1 ص 401 ، بیروت)
عبدالملک بن مروان 66 ھ میں سریر آراۓ سلطنت ہوا اور 86ھ میں فوت ہوا اور ابو الاسود 69 ھ میں فوت ہوا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ 66ھ اور 69ھ کے درمیان قرآن مجید پر نقطے اور اعراب لگاۓ گۓ۔
==================
===========================
ماخوذ از:ذبدۃ الاتقان فی علوم القرآن( عربی) تصنیف :السید محمد بن علوی المالکی الحسنی
اصول ترجمہ و تفسیر القرآن(مترجم) غلام نصیر الدین
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.