You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تحریر: عبدالرزاق قادری
ضلع وہاڑی کے صدر مقام کے نواح میں ایک قصبے کا نام ”لڈن“ ہے۔ لڈن میں ایک خاندان خدمتِ قرآن مجید کے حوالے سے مشہور ہے۔ان میں قاری عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ، قاری حنیف صاحب رحمۃ اللہ علیہ، قاری اللہ رکھا صاحب اور قاری عارف صاحب کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اسی خاندان میں سے ایک اور عظیم نام قاری محمد احمد بخش ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے لاہور میں وہ ”وڈے استاد جی“ یعنی بڑے استاد جی کے نام سے معروف تھے۔ آپ کی پیدائش قیامِ پاکستان سے قبل ہوئی اور آپ نے نوعمری میں 15 ماہ کے قلیل عرصہ میں مکمل قرآن مجید حفظ کیا۔ شاہ بخش صاحب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے پیر و مرشد تھے آپ نے ایک عرصہ ان کی خدمت میں گزرا ، انہی کی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ ”ملتانی“ لکھتے رہے۔
حفظِ کرلینےکے بعد کچھ عرصہ تک آپ نے قرآن مجید کی تدریس فرمائی پھر کوئی دوسرا شعبہ اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن اپنے شیخِ مکرم رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش اور ان کے حکم پر دوبارہ قرآن پاک پڑھانے میں مشغول ہوگئے اس نیک کام کا آغاز تقریباً 1956ء سے ہوا، آپ جامعہ نظامیہ رضویہ(اندرون لوہاری گیٹ) لاہور میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو ”یسرناالقرآن“ قاعدہ پڑھاتے تھے اور قاری حنیف صاحب رحمۃ اللہ علیہ (آپ کے چچا زاد بھائی) قرآن مجید کی کلاس سنبھالتے تھے باقی شعبہ جات دوسرے علماء کرام کے پاس تھے، قاری حنیف صاحب کو جامعہ نظامیہ رضویہ تک لے کر جانے کا سہرا علامہ مولانا محمد علی نقشبندی (بانی جامعہ رسولیہ شیرازیہ) کے سر ہے۔ قاری محمد احمد بخش ملتانی نے تقریباً چودہ برس تک جامعہ نظامیہ رضویہ میں تدریس کا فریضہ سرانجام دیا آپ کے شاگردوں میں کئی جید علماء کرام کے نام شامل ہیں۔
بڑے استاد جی نے دربار شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ (سرکلر روڈ) کے ساتھ ملحقہ مدرسہ میں چند سال قرآن پاک پڑھایا پھر داتا دربار اور بھاٹی گیٹ کے درمیان میں واقع جامعہ حنفیہ غوثیہ میں 1992ء تک تدریس فرمائی ۔ اسی دور میں داتا دربار کمپلیکس کی توسیع ہوئی اور جامعہ حنفیہ غوثیہ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا لیکن اللہ کی قدرت دیکھیے کہ ایک نیک صالحہ خاتون ”عنایت بی بی“ نے دربار کی عقبی جانب کچا رشید روڈ پر ” جامعہ حنفیہ عنایت صدیق “ قائم کروا دیا تھا اور استاد جی یہاں منتقل ہوگئے اور آخری دم تک اسی جامعہ کے مہتمم اعلیٰ رہے۔
میں نے جامعہ عنایت صدیق میں سن 2001ء کے اوائل میں حفظِ قرآن کے لیے داخلہ لیا مجھے جامعہ میں داخل کروانے کی سعادت میرے ابو کے ایک جاننے والے محمد سعید عالم کے حصے میں آئی، انکل سعید داتا دربار کے قریب بابا فرید روڈ پر ایک گرم حمام چلاتے تھے اور وہ خود ایک بہترین حجام تھے میرے ابو کو شاید معلوم تھا کہ یہ صاحب اس مدرسے کے استادجی کے واقف کار ہیں لہٰذا انکل سے رابطہ کیا گیا انہوں نے بڑےاستاد جی سے بات کی اور داخلہ ہوگیا جو کہ پہلے مسترد ہوچکا تھا، جناب محمد سعید عالم 8 اپریل 2013ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے، تاہم میں اُن کا یہ داخلے والا احسان کبھی نہیں چُکا سکتا۔ ان کے بیٹے حافظ ایثار عالم آج بھی وہ دوکان چلا رہے ہیں اور میرے گہرے دوست ہیں۔ میں سن 2004ء اواخر تک اس جامعہ میں پڑھتا رہا، میرے اُستاد جی قاری محمد صدیق احمد صاحب ہیں آپ ، قاری محمد احمد بخش ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بیٹے اور قاری محمد خلیل احمد صاحب چھوٹے بیٹے ہیں۔ بڑے اُستادجی نے اپنی بیٹوں کو قرآن مجید کی تعلیم سے آراستہ کیا اور وہ بھی خدمتِ قرآن میں مصروف رہے۔ میں نے بڑے اُستاد جی سے تقریباً چار مرتبہ سبق پڑھاہوگا اور قاری خلیل صاحب سے بھی کئی مرتبہ سبق پڑھا تھا لیکن میں باقاعدہ قاری محمد صدیق احمد صاحب کی کلاس میں پڑھتا رہا اور انہی کے پاس حفظِ قرآن پاک مکمل کیا۔
بڑے استاد جی کی زندگی کے تقریباً ساٹھ شمسی سال خدمتِ قرآن میں بسر ہوئےجو اپنی قبولیت کی سند آپ ہیں۔ آپ کو با آوازِ بلند سنائی دیتا تھا لیکن مجال ہے کہ کبھی کوئی طالب علم آپ کو قرآن مجید کا سبق سنا رہا ہو اور وہ کوئی چھوٹی سی غلطی بھی کرجائے حتیٰ کہ کبھی بھی ع،غ یا شین، قاف کے مخرج کی ادائیگی میں بھی کوتاہی نہ ہونے دیتے۔ آپ ہر طرح کے تجوید کے قواعد کی پابندی کرواتے مثلاً غنہ، مد، ادغام، اقلاب، اخفا اور اظہار کو نظر انداز کرکے آپ کو قرآن پاک کا سبق نہیں سنایا جاسکتا تھا ۔ آپ نے ایک سادہ زندگی بسر کی اور پوری دلجمعی سے اپنے کام میں مگن رہے آپ کے ابتدائی شاگردوں میں قاری عبدالعزیز، قاری لیاقت علی، قاری محمد اسلم (انگلینڈ)، شیخ محمد اسماعیل( اعظم کلاتھ مارکیٹ لاہور)، حافظ محمود اختر، حافظ محمد طاہر، قاری عطا محمد (سمن آباد لاہور)، قاری سید عاشق حسین شاہ اور موہنی روڈ سے تعلق رکھنے والے صداقت علی کے علاوہ دیگر کئی حفاظ اور قاریوں کے نام ہیں۔
قاری محمد احمد بخش ملتانی نے صحیح معنوں میں اپنی جوانی کو قرآن پاک کی تدریس کے لئے صرف کیا اور محنتِ شاقہ کے ساتھ بہترین حفاظ کرام کے گلدستے اس قوم کی نذر کیے۔ میں نے آپ کی آخری زیارت 2015ء والے عرسِ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ کے موقع پر کی تھی ، سن 2016ء کی 23 جنوری کو آپ کا وصال ہوگیا اور آپ اپنے آبائی قصبے ”لڈن“ میں آسودۂِ خاک ہیں، اللہ عزوجل آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.