You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ناموس ِ رسالت اور مغرب کی شرانگیزیاں ۔ ۔ ۔ ۔
************************************
تحریر :۔محمد احمد ترازی
----------------------------
یہ حقیقت ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے مغرب کے اپنے معیارات....اپنے پیمانے .....اور اپنے خودساختہ معنی ومفہوم ہیں......نوایجاد شدہ مغربی لغت کسی غیر مسلم کے غلط کام کو جرم قرار دیتی ہے........... مگر کسی مسلمان سے اگر وہی کام سرزد ہوجائے تو وہ دہشت گرد قرار پاتا ہے.........اسی طرح مغربی دنیا میں ایک یہودی کا ڈارھی رکھنا اُس کے مذہب کا حصہ مانا جاتا ہے....... مگر ایک مسلمان کی ڈارھی اُسے انتہا پسند اور دہشت گرد گردانتی ہے.....اگر ایک عیسائی راہبہ” نن“ اپنے سر کو کپڑے سے ڈھانپے تو کہا جاتا ہے اُس نے اپنے آپ کو خداوند مسیح کیلئے وقف کردیا ہے.......لیکن ایک مسلمان عورت اگر اسکارف اوڑھے تو مغرب اُسے نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے.....مغرب کو چرچ کی گھنٹیوں کا بجنا درست لگتا ہے مگر مساجد سے اذانوں کا بلند ہونا سماعتوں پر بوجھ اور نیند کُش محسوس ہوتا ہے.......الغرض مغرب اپنے ہر فعل ہر عمل کیلئے آزاد و خود مختار مگر مسلمان اپنے فعل وعمل کیلئے قابل نفرت ومعتوب قرار پاتے ہیں.....یہ ترقی یافتہ،رواداری اور حقوق انسانی کے عالمی چیمپیئن اور اپنے آپ کو انسانی آزادی اور آزادی اظہار کے دعویدار کہلانے والے مغرب کا وہ منافقانہ دوہرا معیار ہے.....جس کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں،مگر ہم نے یہاں صرف چند پر اکتفا کیا ہے ۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب توہین اسلام اور گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تو آزادی اظہار سے تعبیر کرتا ہے.... مگر کسی فرد کو اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ کہہ سکے......جبکہ اِس تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہولوکاسٹ کا یہ قانون آزادی اظہار پر قدغن نہیں؟کیا ہولوکاسٹ کیلئے علیحدہ سے قانون سازی کرنا اور مسلمانوں کے مذہبی شعار کیلئے قانون بنانے سے گریز کرنامتضاد رویئے کی عکاسی نہیں کرتا اور کیا ہولوکاسٹ کے منکرین کیلئے قانون کی موجودگی اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بھی ایسے ہی کسی قانون کے نفاذ کا جواز فراہم نہیں کرتا۔؟
مغرب کے پاس اِن سوالوں کا کوئی جواب نہیں،نہ ہی وہ اِن سوالوں کے جواب تلاش کرنا اور دینا چاہتا ہے،دراصل مغرب کا یہ طرز عمل اُس کے اُس ذہنی خناس کو ظاہر کرتا ہے جس کے مظاہرے اکثر و بیشتر توہین آمیز خاکے،متنازعہ کتب ورسائل اورگستاخانہ فلموں کی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں اورمغرب کا خبث باطن اُسے بغض و کینہ اور نفرت پن پر ابھارتا رہتا ہے،
یہ اَمر مغرب کے اُس نفسیاتی روگ اور دلی مرض کی جانب اشارہ کرتا ہے،جس کا راز اُس ذلت آمیزہزیمت اورشرمناک شکست میں پوشیدہ ہے جو اُس نے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے کھائی تھی،اسلام اورعالم اسلام کے خلاف مغربی دنیا کا یہ بغض اب پوری طرح عریاں ہوچکا ہے،ہاروڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ اب کھل کر عملی شکل اختیار کرچکا ہے،یہ شیطانیت کا وہ پہلو ہے جس کا اظہار صدیوں سے ہورہا ہے اور جسے مغرب آزادی اظہار کے لبادے میں چھپانا اور تحفظ چاہتا ہے ۔
”ناموس رسالت کے خلاف مغرب کی شرانگیزیاں“ دراصل مغرب کے اِسی بغض وعناد بھرے مکروہ چہرے کی نقاب کشائی ہے،جسے عصر حاضر کے نوجوان محقق محمد متین خالد نے ترتیب دیا ہے،آپ جانتے ہیں کہ رد ِفتنہ مرزائیت اور تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم محمدمتین خالد کا پسندیدہ موضوع ہے،اب تک اِس موضوع پر اُن کے قلم سے نکلی ہوئی 60 سے زائد کتب دنیا بھر میں قبولیت عامہ کا درجہ حاصل کرکے متین خالد کی پہچان وشناخت بن چکی ہیں،دفاع تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان افروز راستے پر چلتے ہوئے متین خالد کو تقریباً تین عشرے گزرچکے ہیں،اِس دوران ”عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت،قادیانی عقائد،قادیانیوں سے متعلق عدالتی فیصلے،قادیانیت سے متعلق آئین و قانون کیا کہتا ہے،احمدی دوستو تمہیں اسلام بلاتا ہے،مرزا قادیانی کی علمی حیثیت،حضرت مہر علی شاہ گولڑوی اور فتنہ قادیانیت،پاکستان کے خلاف قادیانی سازشیں،پارلیمنٹ میں قادیانی شکست، قادیانیت انگریز کا خود کاشتہ پودا،شہیدانِ ناموس رسالت،ناموس ِرسالت کے خلاف امریکی سازشیں،اُف یہ پادری،حقوق انسانی کی آڑ میں،علامہ اقبال اور فتنہ قادیانیت،اسلام کا سفیر اور ثبوت حاضر ہیں‘‘جیسی مشہورو معروف اور معرکۃ الآراءکتابیں اُن کے قلم سے نکل کر باطل کے ایوانوں میں زلرلہ برپا کرچکی ہیں،جبکہ لاتعداد مقالات و کتابچے اِس کے علاوہ ہیں ۔
آج محمد متین خالد کا نام پاکستان اور بیرونی دنیا کے علمی ادبی اور دینی حلقوں میں ایک معتبر حوالہ اور موقر استعارہ بن چکا ہے،متین خالد سامراجی و یہودی گماشتوں اور قادیانیت کے خرمن باطل کیلئے شعلہ جوالہ اور برق بے اماں کی حیثیت رکھتے ہیں،وہ ادبی حلقہ میں استعمار و شمن مجاہد کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں،اُن کی تمام تر قلمی ترکتازیوں کا ہدف اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن وہ نقاب پوش گماشتے ہیں جو دین کے نام پراسلام کے قلعے اور عقائد کی فیصلوں پر شب خون مارنا چاہتے ہیں،متین خالد نے استعمار کے اِن پٹھوؤں کو اسلام کے پیرہن میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ضرار بنانے کیلئے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے پھر رہے تھے،اپنے قلم کہٹرے میں لاکھڑا کیاہے اور انہیں اِس طرح بے لباس وبے نقاب کردیا ہے کہ اِن بھگوڑوں کیلئے اب جائے ماندن ہے نہ پائے رفتن ۔
عصر حاضر میں قادیانیت عالم اسلام کی شہہ رگ پر سرطان کے پھوڑے کی مانند ہے،اِس پھوڑے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے جس قسم کی تیز دھار نشتر کی ضرورت ہے وہ متین خالد کی تحریروں میں بدرجہ اَتم موجود ہے،وہ اِس میدان میں قرون اولیٰ کی خالدی شمشیر لیے ڈٹے ہوئے ہیں،یقینارد ِقادیانیت اور تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پرمحمد متین خالد کی تحقیقی و تصنیفی اور تالیفی و تجزیاتی کاوشوں کی اصابت و دقعت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے،اُن کی یہ کاوشیں گزشتہ تین عشرے سے تواتر و تسلسل کے ساتھ ارباب نقد ونظر سے خراج و ستائش وصول کر رہی ہیں،بیگانہ و خویش ہر حلقہ،محبوب و معتوب ہر انجمن اور حلیف و حریف ہر محاذ اُن کی سنجیدہ فکر اور ثقاہت کا معترف ہے،غیر جانبدار اور حقائق شعار اصحاب دانش تسلیم کر چکے ہیں کہ اِس نوجوان محقق کی تالیفات و تصنیفات کا مابہ الامتیاز و صف دیانت صداقت متانت اور جرات ہے،اُن کی تازہ کتاب”ناموس رسالت کے خلاف مغرب کی شرانگیزیاں“ بھی انہی خوبیوں کا نادر مرقع ہے ۔
جس میں ملک کے ممتاز اہل قلم،دانشور اور مذہبی اسکالرز جن میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین،اوریا مقبول جان،انور غازی،پروفیسر محمد اکرم رضا،محمد اسماعیل قریشی،شاہ بلیغ الدین،مفتی تقی عثمانی،ڈاکٹر اسرار احمد،عرفان صدیقی،حامد میر،ارشاد احمد حقانی،یاسر محمد خان،جنرل حمید گل،اسلم شیخوپوری،ڈاکٹر طاہر القادری،اشتیاق بیگ،بشریٰ رحمن،خاور چوہدری،جسٹس سجاد علی شاہ،جاوید چوہدری،فرحت عباس شاہ وغیرہ شامل ہیں، کے 126 کے قریب پر مغز،مدلل اور معلوماتی مضامین ومقالات ایمان کو نئی تازگی اور جلاءبخشتے ہیں،برادرم محمد متین خالد نے عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز اِن ایمان افروز تحریروں کو یکجا کر کے جہاں ایک گرانقدر علمی تحفہ دیا ہے،وہیں انہوں نے مغرب کی منافقت،اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے معاندانہ رویہ کو بھی بے نقاب کردیا ہے،انہوں نے اِس تحقیقی دستاویز میں حقائق کا وہ آئینہ دکھایا ہے جس میں مغرب اپنے تمام تر انسانی حقوق،مساوات اور رواداری کے بلند بانگ دعووں کے باجودجھوٹا،مکار اور فریبی نظر آتا ہے اور اُس کا خبث باطن پوری طرح عریاں ہوکر دنیا کے سامنے آجاتا ہے ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.