You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
>>>> پہلے اِس طرح نیّت کیجئے :
’’میں نیّت کرتا ہوں دو رَکْعَت نَماز عیدُالْفِطر( یا عیدُالْاَضْحٰی )کی ،ساتھ چھ زائد تکبیروں کے ،واسِطے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ، پیچھے اِس امام کے‘‘
---------------------
>>>> پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اللہُ اَکْبَر کہہ کر حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیجئے اور ثَناء پڑھئے ۔
---------------------
>>>> پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اوراللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے لٹکا دیجئے ۔
پھر ہاتھ کانوں تک اٹھائیے اوراللہُ اَکْبَر کہہ کر لٹکا دیجئے ۔
پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائیے اوراللہُ اَکْبَر کہہ کر باندھ لیجئے یعنی پہلی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھئے اس کے بعد دوسری اور تیسری تکبیر میں لٹکائیے اور چوتھی میں ہاتھ باند ھ لیجئے ۔
اس کو یوں یادرکھئے کہ جہاں قِیام میں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھنے ہیں اور جہاں نہیں پڑھنا وہاں ہاتھ لٹکانے ہیں۔
---------------------
>>>> پھر امام تَعَوُّذاور تَسْمِیَہ آہِستہ پڑھ کر اَلحَمدُ شریف اور سورۃ جہر ( یعنی بُلند آواز ) کیساتھ پڑھے ، پھر رُکوع کرے ۔
---------------------
>>>> دوسری رَکْعَت میں پہلے اَلحَمدُ شریف اور سُورۃ جہر کے ساتھ پڑھے ، پھر تین بار کان تک ہاتھ اٹھا کراللہُ اَکْبَر کہئے اور ہاتھ نہ باندھئے اور چوتھی باربِغیر ہاتھ اُٹھا ئے اللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رُکوع میں جائیے اور قاعِدے کے مطابِق نَماز مکمَّل کرلیجئے ۔ ہر دو تکبیروں کے درمیان تین بار ’’ سُبْحٰنَ اللہ ‘‘ کہنے کی مِقدار چُپ کھڑا رَہنا ہے۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱ دُرِّمُختار ج۳ص۶۱ وغیرہ)
=================
=====================
=============================
نَمازِ عید کس پر واجِب ہے؟
عیدَین ( یعنیعیدُالْفِطْر اور بَقَر عید ) کی نَماز واجِب ہے مگر سب پر نہیں صِرف ان پر جن پر جُمُعہ واجِب ہے۔ عِیدَین میں نہ اذان ہے نہ اِقامت ۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹،مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی، دُرِّمُختار ج۳ص۵۱دارالمعرفۃ بیروت)
=========================
عید کاخُطبہ سنَّت ہے
عیدَین کی ادا کی وُہی شرطیں ہیں جو جُمُعہ کی ، صِرف اتنا فرق ہے کہ جُمُعہ میں خُطبہ شرط ہے اور عیدَین میں سُنَّت۔ جُمُعہ کا خطبہ قبل ازنَماز ہے اور عیدَین کا بعداز نَماز۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹،عالمگیری ج۱ص۱۵۰)
===================
نمازِ عید کا وقت
ان دونوں نمازوں کا وَقت سورج کے بقدر ایک نیزہ بلند ہونے ( یعنی طلوعِ آفتاب کے 20 مِنَٹ کے بعد)سے ضَحوۂ کُبرٰی یعنی نِصفُ النّہارشرعی تک ہے مگر عیدُالْفِطر میں دیر کرنا اور عیدُالْاَضحٰی جلد پڑھنا مُستَحَب ہے ۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱، دُرِّمُختار ج۳ص۶۰)
============================
عید کی ادھوری جماعت ملی تو۔۔۔۔۔۔۔؟
پہلی رَکعَت میں امام کے تکبیریں کہنے کے بعد مقتدی شامِل ہوا تو اُسی وَقت (تکبیرِ تَحریمہ کے علاوہ مزید) تین تکبیریں کہہ لے اگر چِہ امام نے قرائَ ت شروع کر دی ہوا ور تین ہی کہے اگرچِہ امام نے تین سے زِیادہ کہی ہوں اور اگر اس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رُکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیر یں کہہ لے اور اگر امام کو رُکوع میں پایا اور غالِب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رُکوع میں پالیگا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رُکوع میں جائے ورنہ اللہُ اَکْبَر کہہ کر رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رُکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اُٹھالیا تو باقی ساقِط ہو گئیں ( یعنی بَقِیَّہ تکبیریں اب نہ کہے) اور اگر امام کے رُکوع سے اُٹھنے کے بعد شامِل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) جب اپنی( بَقِیَّہ ) پڑھے اُس وَقت کہے۔ اور رُکوع میں جہاں تکبیرکہنا بتایا گیا اُس میں ہاتھ نہ اُٹھائے اور اگر دوسری رَکعَت میں شامِل ہوا تو پہلی رَکْعَت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اُس وَقت کہے۔ دوسری رَکعَت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پاجائے فَبِھا( یعنی تو بہتر)۔ ورنہ اس میں بھی وُہی تفصیل ہے جو پہلی رَکْعَت کے بارے میں مذکور ہوئی۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۲، دُرِّمُختار ج۳ص۶۴، عالمگیری ج۱ص۱۵۱)
==========================
عید کی جماعت نہ ملی تو کیا کرے؟
امام نے نَماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامِل ہی نہ ہوا تھایا شامِل تو ہوا مگر اُس کی نَماز فاسد ہو گئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ (بِغیر جماعت کے)
نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شَخص چار رَکْعَت چاشت کی نَماز پڑھے۔
(دُرِّمُختار ج۳ص۶۷)
====================
عید کے خُطبے کے اَحکام
نَماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور خُطبۂ جُمُعہ میں جو چیزیں سنَّت ہیں اس میں بھی سنَّت ہیں اور جو وہاں مکروہ یہاں بھی مکروہ ۔صِرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جُمُعہ کے پہلے خُطبہ سے پیشتر خطیب کا بیٹھنا سنَّت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنَّت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خُطبہ سے پیشتر9 بار اور دوسرے کے پہلے7 بار اور منبر سے اُترنے کے پہلے 14 باراللہُ اَکْبَر کہنا سنَّت ہے اور جُمُعہ میں نہیں۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۳، دُرِّمُختار ج۳ص۶۷، عالمگیری ج۱ص۱۵۰)
اِس مُبارَک مِصرع،’’
===========================
دیدو عیدی میں غم مدینے کا ‘‘ کے بیس حُرُوف کی نِسبت سے عید کے 20 آداب
عید کے دِن یہ اُمُورمُسْتَحَب ہیں :
حَجامت بنوانا(مگر زُلفیں بنوایئے نہ کہ اِنگریزی بال)خناخُن تَرشواناخ غُسل کرناخ مِسواک کرنا(یہ اُس کے عِلاوہ ہے جو وُضُو میں کی جاتی ہے ) اچّھے کپڑے پہننا ، نئے ہوں تو نئے ورنہ دُھلے ہوئیخ خُوشبو لگانا خ انگوٹھی پہننا (جب کبھی انگوٹھی پہنئے تو اِس بات کا خاص خیال رکھئے کہ صِرف ساڑھے چار ماشہ سے کم وَزن چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنئے ۔ ایک سے زیادہ نہ پہنئے اور اُس ایک انگوٹھی میں بھی نگینہ ایک ہی ہو، ایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں ،
بِغیر نگینے کی بھی مت پہنئے۔ نگینے کے وَزن کی کوئی قید نہیں۔ چاند ی کا چَھلّہ یا چاندی کے بیان کردہ وَزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا چھلّہ مرد نہیں پہن سکتا) خ نَماز فَجر مسجِد مَحَلّہ میں پڑھناخ عیدُ الفِطر کی نَماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا، تین ، پانچ ، سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں۔کَھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لیجئے۔ اگر نَماز سے پہلے کچھ بھی نہ کھایا تو گُناہ نہ ہوا مگر عشاء تک نہ کھایا تو عِتاب (ملامت) کیا جائے گا خ نَمازِ عید ، عِیدگاہ میں ادا کرناخ عِید گاہ پیدل چلناخ سُواری پر بھی جانے میں حَرَج نہیں مگر جس کو پیدل جانے پرقُدرت ہو اُس کیلئے پیدل جانا اَفضل ہے اور واپَسی پر سُواری پر آنے میں حَرَج نہیں خ نَمازِ عِید کیلئے ایک راستے سے جانا اوردوسرے راستے سے واپَس آناخعِید کی نَماز سے پہلے صَدَقَۂ فِطر ادا کرنا(اَفضل تو یہی ہے مگر عید کی نَماز سے قَبل نہ دے سکے تو بعد میں دیدیجئے) خ خُوشی ظاہِر کرناخکثرت سے صَدَقَہ دیناخ عید گاہ کو اِطمینان و وَقار اور نیچی نِگاہ کئے جاناخ آپَس میں مُبارک باد دیناخ بعدِ نَماز عِید مُصَافَحہ ( یعنی ہاتھ مِلانا) اور مُعانَقَہ (یعنی گلے ملنا) جیسا کہ عُمُوماً مسلمانوں میں رائج ہے بہتر ہے کہ اِس میں اِظہارِمَسرَّت ہے۔ مگر اَمرَد خوبصورت سے گلے ملنا مَحَلِّ فِتنہہےخ عِیدُ الفِطر ( یعنی میٹھی عِید) کی نَماز کیلئے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ سے تکبیر کہیں اور نَمازِ عِیدِ اَضحٰی کیلئے جاتے ہوئے راستے میں بُلند آواز سے تکبیر کہیں۔ تکبیریہ ہے:
اللہُ اَکْبَرُُ ط اللہ ُاَکْبَرُط لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ ط اللہُ اَکْبَرُط وَلِلّٰہِ الْحَمْد
ترجَمہ : اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے،اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سِوا کوئی عِبادت کے لائق نہیں اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کے لئے تمام خوبیاں ہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۱، عالمگیری ج۱ص۱۴۹،۱۵۰ وغیرہ)
====================
بَقَر عید کا ایک مُستَحَب
عیدِ اَضْحٰی ( یعنی بَقَر عید) تمام اَحکام میں عیدُ الفِطر ( یعنی میٹھی عید) کی طرح ہے۔ صِرف بعض باتوں میں فَرق ہے، مَثَلاً اِس میں ( یعنی بَقَر عید میں ) مُستَحَب یہ ہے کہ نَماز سے پہلے کچھ نہ کھائے چاہے قُربانی کرے یا نہ کرے اور اگر کھا لیا تو کَراہت بھی نہیں۔
(عالمگیری ج۱ص۱۵۲ دارالفکربیروت)
’’اللہُ اکبر‘‘کے آٹھ حُروف کی نسبت
سے تکبیر تشریق کے 8مَدَنی پھول
خ نویں ذُوالحجَّۃِ الحرام کی فَجر سے تیرھویں کی عصر تک پانچوں وقت کی فرض نمازیں جو مسجد کی جماعتِ مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئیں ان میں ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیرِ تشریق کہتے ہیں۔اور وہ یہ ہے:
اللہُ اَکْبَرُُ ط اللہ ُاَکْبَرُط لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ ط اللہُ اَکْبَرُط وَلِلّٰہِ الْحَمْد
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۵، تَنوِیرُ الْاَبصار ج۳ص۷۱)
خ تکبیرِ تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراًکہنا واجِب ہے ۔ یعنی جب تک کوئی
ایسافِعل نہ کیا ہو کہ اُس پر نَماز کی بِنا نہ کر سکے مَثَلاًاگر مسجِدسے باہَر ہو گیا یاقَصداً وضو توڑ دیا یا چاہے بھُول کر ہی کلام کیا تو تکبیر ساقِط ہو گئی اوربِلاقَصد وُضو ٹوٹ گیا تو کہہ لے۔
(دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۳ دارالمعرفۃ بیروت)
خ تکبیرِ تشریق اُس پر واجِب ہے جو شہر میں مُقیم ہو یا جس نے اِس مقیم کی اِقتِدا کی۔ وہ اِقتِدا کرنے والا چاہے مسافِر ہو یا گاؤں کا رَہنے والا اور اگر اس کی اِقتِدا نہ کریں تو ان پر (یعنی مسافر اور گاؤں کے رَہنے والے پر) واجِب نہیں۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۷۴)
خمُقیم نے اگر مسافر کی اِقتِدا کی تو مُقیم پر واجِب ہے اگرچِہ اس مسافر امام پر واجِب نہیں۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۴)
خنَفل، سنّت اور وِتر کے بعد تکبیر واجِب نہیں۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۵،رَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۳)
خ جُمُعہ کے بعد واجِب ہے اورنَمازِ ( بَقَر)عید کے بعد بھی کہہ لے۔ (اَیْضاً)
خ مَسبُوق ( جس کی ایک یا زائد رَکْعَتیں فوت ہوئی ہوں ) پر تکبیر واجِب ہے مگر جب خود سلام پھیرے اُس وقت کہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۷۶)
خ مُنْفَرِد( یعنی تنہا نَماز پڑھنے والے ) پر واجِب نہیں (اَلْجَوْہَرَۃُ النَّیِّرَۃ ص۱۲۲) مگر کہہ لے کہ صاحِبَین( یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد رَحِمَہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی)کے نزدیک اس پر بھی واجِب ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۶)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.