You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سرزمین ہند کے عظیم عالم خلیفۂ اعلیٰ حضرت
مبلغ اسلام علامہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی
جن کی تبلیغی مساعی سے دنیا کے تمام براعظم فیض یاب ہوئے
**************************************************
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی
-------------------------------------
دنیائے اسلام کی عظیم ترین اور نام ور شخصیت اما م احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے شاگردوں اور خلفا ے کرا م میں ہر کوئی چندے آفتاب اور چندے ماہ تاب تھا۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب "بہار شریعت" کے مصنف مولانا امجد علی اعظمی، علم ہیئت و فلکیات کے ا تھاریٹی ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری، مفسر قرآن علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبۂ دینیات حضرت پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری، اور دیگر تلامذہ و خلفا کہ جن کی فہرست طویل ہے ہر کوئی علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھا۔ پیشِ نظر مضمون میں امام احمد رضا بریلوی کے ایک ایسے شاگردِ رشید اور خلیفۂ ارشد کا ذکر مقصود ہے کہ جن کی تبلیغی مساعیِ جمیلہ سے نہ صرف ایشیائی ممالک فیض یاب ہوئے اور ہو رہے ہیں بل کہ دنیا کے سبھی براعظموں میں بسنے والے انسانوں کو آپ نے اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ آج دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا جو عظیم الشان جدید ترین نظام قائم ہے بلا مبالغہ اس کے اولین قائد و سرخیل مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ( والد ماجد علامہ شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ) کی ذات ہے۔ آپ کی سوانح حیات مطالعہ کرنے کے بعد اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت15 رمضان المبارک 1310ھ بمطابق3 اپریل 1892ء کو میرٹھ میں ہوئی اور وفات22 ذی الحجہ 1374ھ بمطابق22اگست 1954ء کو مدینۂ منورہ میں ہوئی اور ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں جنت البقیع شریف میں تدفین عمل میں آئی۔
مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون کے ماہر تھے۔ آپ نے اٹاوہ کالج سے انٹر نس اور میرٹھ سے بی۔ اے کیا تھا۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرنچ، جاپانی، ملایا اور چینی زبانوں پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل تھی۔
1915ء میں حجازِ مقدس پہنچے۔ واپس آ کر اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کی مریدی میں شامل ہوئے۔ منازل سلوک طے کیں اور خلافت و اجازت حاصل کیں۔ امام احمد رضا نے اپنی مشہورِ زمانہ طویل نظم "الاستمداد " میں آپ کا ذکر اس طرح کیا ہے
عبد علیم کے علم کو سُن کر
جہل کی بہل بھگاتے یہ ہیں
امام احمد رضا قدس سرہٗ کے علاوہ آپ نے شیخ احمدالشمس (مراکش) اور شیخ السنوسی سے بھی روحانی فیض حاصل کیا۔ آپ نے اپنی زندگی کا طویل حصہ تبلیغ دین میں بسر فرمایا۔1919ء سے 1954ء تک یورپ، افریقہ،اور امریکہ کے متعدد ممالک اور ریاستوں میں جا کر اسلام کی روشنی پھیلاتے رہے۔ جہاں گئے مساجد، مکاتب، مدارس، کتب خانے، ہسپتال، یتیم خانے، اور تبلیغی مراکز قائم کرتے گئے۔
آپ نے 1951ء میں خصوصی طور پر پوری دنیا کا تبلیغی دورہ فرمایا۔ جن میں قابل ذکر ممالک انگلستان، فرانس، اٹلی، برٹش گیانا، مڈغاسکر، سعودی عرب، ٹرینی ڈاڈ، امریکہ، کینیڈا، فلپائن، سنگا پور، ملیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور سیلون وغیرہ تھے۔ ان کے علاوہ برما، انڈوچائنا، چین، جاپان، ماریشیش، جنوبی و مشرقی افریقہ کی نوآبادیات، سری نام، ملایا، عراق، اردن،شام، مصر، فلسطین وغیرہ وغیرہ ممالک کی مختلف ریاستوں، شہروں، دیہات اور قصبات وغیرہ کا دورہ کیا اور اسلام کی تبلیغ فرمائی اور فکر رضا کو عام کیا۔ ان دوروں میں آپ نے تمام مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور ہرزبان میں اسلام کا لٹریچر شائع کیا۔ آپ کی تبلیغی کوششوں سے دنیا کی مشہور شخصیات میں بورینو کی شہزادی Gladys Palmerماریشیش کے فرانسیسی گورنرMerwat ٹرینی ڈاڈ کی ایک خاتون وزیر Murifl Donawa مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کی علمی و روحانی شخصیت سے محمد علی جناح، مراکش کے غازی عبدالکریم، فلسطین کے مفتی اعظم سید امین الحسینی، اخوان المسلمین کے سربراہ حسن البناء، سیلون کے آنریبل جسٹس ایم مروانی، کولمبو کے جسٹس ایم ٹی اکبر، سنگاپور کے ایس دتّ، اور مشہور انگریز ی ڈرامہ نویس اور فلسفی جارج برناڈشا جیسی مشہور ہستیاں بے حد متاثر تھیں۔
7اپریل 1935ء کو ممباسہ جنوبی افریقہ میں جارج برناڈشا سے علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی ملاقات ہوئی۔ آپ نے برناڈشا کے مختلف سوالات کے جوابات اس انداز سے دیئے کہ دنیا کاعظیم فلاسفر آپ کے سامنے طفل مکتب نظر آنے لگا۔ آپ نے اسلام اور عیسائیت کے اصولوں کا تقابلی جائزہ تاریخ، سائنس اور فلسفہ کی روشنی میں اس طرح بیان کیا کہ برناڈ شا پھڑک اٹھا اور کہنے لگا کہ: "عبدالعلیم! تم جو کہہ رہے ہو وہی اسلام ہے تو مستقبل میں جو مذہب حکومت کرے گا وہ اسلام ہی ہو گا۔"(ماخوذ: ماہ نامہ ترجما نِ اہل سنت، کراچی، شمارہ محرم و صفر 1992ھ )
حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے تعلیماتِ اسلامیہ کو عام کرنے کے لیے ہر پہلو پر توجہ فرمائی۔ متعدد مساجد تعمیر کرائیں۔ جن میں سے حنفی مسجد کولمبو، سلطان مسجد سنگا پور، اور مسجد ناگریا جاپان، زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ عربی یونی ورسٹی ملایا، پاکستان نیوز مسلم ڈائجسٹ، ٹرینی ڈاڈمسلم اینول (جنوبی افریقہ ) کی بنیاد آ پ ہی نے رکھی۔ 1949ء میں سنگاپور میں تنظیم بین المذاہب کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد ڈالی اور تمام دنیا کے عیسائی، یہودی، بدھ مت اور سکھ مذاہب کے پیشواؤں کو اکٹھا کر کے لادینیت اور لامذہبیت کے خلاف ایک تحریک چھیڑی، تمام مذاہب کے پیشواؤں کی مشترکہ کانفرنس میں آپ کو ہزاکزیٹینڈ ایمی نینس His Exalted Eminence کا خطاب دیا گیا۔ نیز مصر میں تنظیم بین المذاہب الاسلامیہ کے نام سے مختلف مکاتب فکر کی ایک تنظیم قائم کی۔ 1965ھ/1946ء میں حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ رابطۂ اسلامیۂ ہند کے وفد کے رئیس اور ملایا، جنوبی و مشرقی افریقہ اور جزائر شرقیہ کے مندوب کی حیثیت سے سعودی عرب تشریف لے گئے اور سعودی نجدی حکومت کی طرف سے حجاج پر عائد کردہ غیر ضروری ٹیکسوں کے خاتمے کے لیے سخت احتجاج کیا۔ حجاج کی سہولت کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے اجلہ علمائے کرام کے ساتھ حکومت سعودیہ کے عمائدین بالخصوص عبدالعزیز بن سعود سے سخت مذاکرات کیے جن کے خاصے اثرات مرتب ہوئے اور سعودی نجدی حکومت نے غیر ضروری ٹیکسوں کو ختم کر دیا اور حجاج کے لیے سہولیات میں اضافہ کا یقین دلایا۔ ان مذاکرات کی پوری تفصیل عربی میں شائع ہوئی تھی جس کا ابتدائیہ اخوان المسلمین (مصر)کے بانی حسن البناء نے لکھا تھا۔ اور حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی خدماتِ جلیلہ کو خراجِ تحسین پیش کیا، موصوف لکھتے ہیں کہ : " اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دوسال ہوئے ہماری ملاقات ارضِ مقدس میں بیت اللہ شریف کے پاس صاحبِ فضیلت مبلغِ اسلام الشیخ محمد عبدالعلیم صدیقی سے ہوئی (کچھ عبارتوں کے بعد) ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صاحبِ فضیلت استاذ شیخ محمد عبدالعلیم صدیقی کو تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے، آمین۔"(تذکرۂ اکابر اہل سنت ص 238/240مکتبۂ قادریہ لاہور)
میرٹھ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں ہی آپ کو برما مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کے لیے تجویز کیا گیا اس کانفرنس میں آپ نے جو معرکہ آرا خطبۂ صدارت ارشاد فرمایا وہ معلومات افزا اور انقلاب آفریں تھا جس کی صدائے بازگشت برما،ملایا، سیلون اور انڈونیشیا کے گوشے گوشے میں سنی گئی۔ اس وقت کے حالات نے مجبور کیا اور آپ جذبۂ حب الوطنی اور خدمت دین کے جذبات سے مغلوب ہوئے تو سیاسی اور قومی تحریکات میں شامل ہو گئے۔ تحریک خلافت کے اس دور میں جب کہ انگریزوں کے خلاف زبان کھولنا مشکل ترین امر تھا۔ آپ نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی وغیرہ علما کے شانہ بشانہ ایک عرصے تک کام کرتے رہے۔ جب خلافت تحریک اپنے اصولوں سے منحرف ہوئی تو آپ نے علاحدگی اختیار کر لی۔
تحریک خلافت کے بڑھتے ہوئے سیلاب اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی عروج کو ختم کرنے کے لیے مہاسبھائیوں نے پہلی بار یوپی اور دیگر صوبہ جات ِ ہند میں جب شدھی کا جال پھیلانا شروع کیا تو آپ نے اپنے مرکز روحانیت بریلی شریف کی سرپرستی میں آل انڈیا جماعت رضائے مصطفی ٰ کی زیر اہتمام حضور مفتی اعظم علامہ شاہ مصطفیٰ رضا نوری ؔ بریلوی کی قیادت میں ہر جگہ شدھی تحریک کا تعاقب کیا اور فتنۂ ارتداد کے اس پر آشوب عہد میں ہر جگہ تبلیغی مراکز قائم کیے۔ بمبئی، کرناٹک، احمد آباد، سوراشٹر وغیرہ میں آپ نے ایسی قیادت فرمائی کہ ان جگہوں پر مسلمان شدھی کی لعنت سے محفوظ ہوئے۔ بمبئی کے دورانِ قیام آپ نے پونہ میں ایک نیشنل ہائی اسکول قائم کی جس کا الحاق نیشنل یونی ورسٹی علی گڑھ سے کرایا۔
حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کو 1923ء میں سیلون کے مسلمانوں نے دعوت دی آپ وہاں پہنچے اس وقت وہاں کے مسلمانوں میں کافی انتشار و افتراق تھا۔ آپ نے مسلمانوں کے منتشر شیرازے کو امام احمد رضا کے پیغام عشق رسول(ﷺ) کے سہارے محبت رسول (ﷺ) کی بنیاد پر متحد کر دیا۔ مختلف جماعتوں کو توڑ کر سیلون کے مسلمانوں کی ایک مرکزی جماعت تشکیل دی۔ آپ کی علمی و روحانی شخصیت سے متاثر ہو کر اس وقت سیلون کے ایک عیسائی وزیر مسٹر ایف کنگ ہن بیری نے اسلام قبول کر لیا۔
1924ء میں جب کہ دنیا کے بیش تر اسلامی ممالک سیاسی بحران سے دوچار تھے ان ایام میں آپ مکۂ مکرمہ میں قیام پذیر تھے۔ مکہ کی حکومت نے آپ سے " مسلم کانگریس یروشلم "کی کارروائیوں میں شرکت کی التماس کی۔ آپ اس کانفرنس میں تشریف لے گئے اوراسلامی ممالک کو ان کے فرض منصبی سے باخبر کرتے ہوئے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ اسلام دشمنوں کی سازشوں کو ناکام کیے بغیر اور غیروں پر انحصاری کیفیت کو دور کیے بغیر ترقی ناممکن ہے۔
سیلون کے مسلمانوں کے شدید اصرار پر آپ دوبارہ وہاں پہنچے، دین کی تبلیغ فرمائی رشد و ہدایت کی محفلیں آراستہ کیں۔ 1928ء میں سیلون سے ایک انگریزی اخبار "کوکبِ اسلام " کا اجرا فرمایا، اس اخبار کی ادارت موش ہے میسجد کے سپرد فرمائی۔ جنھوں نے اس ذمے داری کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔ اُس وقت پورے عالم اسلام میں "کوکبِ اسلام" نامی اِس انگریزی اخبار کو بڑے شوق و ذوق سے پڑھا جاتا تھا۔
حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے جنوبی و مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جب کہ دنیا کے مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ ان پر دوسرے مذاہب کے اثرات غیر محسوس طور پر مرتب ہوتے جا رہے تھے۔ آپ نے طویل عرصہ تک برما، سیام، انڈونیشیا، فرانس، انڈوچائنا، ملایا، چین، جاپان اور سنگاپور میں قیام فرمایا اور دنیا کے دیگر مذاہب کو دعوتِ اسلام دی۔ قادیانیوں کی مشنریوں کے اثرات کو یک سر ختم کرنے کی کوشش مسلسل جاری رکھی۔ اپنے مرشد گرامی امام احمد رضا کی قادیانیت کے رد پر لکھی ہوئی کتب کو ان علاقوں میں خوب عام کیا اور خود بھی کتب و رسائل تصنیف فرمائے۔ کرسچن مشنریز نے جن ہزارہا مسلمانوں کو عیسائی بنا لیا تھا آپ نے ان کو بڑے خلوص کے ساتھ اسلام کی دعوت دی اور اپنے سچے مذہب کے بارے میں بتایا ان میں سے بیش تر نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا۔ آپ کی سوانح میں لکھا ہے کہ اس قیام کے دوران آپ نے 18ہزار مسلمانوں کو جنھیں عیسائی بنا لیا گیا تھا از سر نو کلمہ پڑھا کر مسلمان بنا یا۔
برما میں آپ نے "انجمن نوجوانان برما" کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ مالے پینانگ کوالالمپور میں مسلمان آپ پر جاں نثار کرتے تھے۔ سنگا پور کے قیام کے دوران آپ نے یہاں سے مشہور انگریزی رسالہ "دی اسلام" جاری فرمایا۔ملایا میں آپ نے اپنے ایک لائق و فائق شاگرد سید ابراہیم الشگوف کو "آل ملایا مشنری سوسائٹی " کا صدر بنایا، مذکورہ سوسائٹی کی بنیاد حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے خود رکھی تھی۔
یوروپی ممالک کے دورے میں آپ کے بیانا ت اور لیکچرز کو سننے کے لیے علوم جدیدہ کے ماہرین، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ، سا ئنسدانوں، فلسفیوں اور دہریوں نے خاصی دل چسپی کا مظاہر ہ کیا۔ اور آپ سے اِن لوگوں نے تاریخی ملاقاتیں کیں، عالمانہ مباحثے کیے۔ الحمدللہ ! آپ کے سامنے اکثر محققین کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اور بیش تر نے اسلام بھی قبول کیا۔
جنوبی افریقہ کے دورانِ قیام جب آپ" ویٹ واٹرس رینڈ یونیورسٹی" میں خطبات و تقاریر کے بعد زنجباز، دارالسلام اور ممباسہ تشریف لے گئے تو مشہور مغربی مفکرجارج برناڈشا سے ملاقات ہوئی، جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ یہاں سے جب آپ فرانس گئے تو آپ کی ملاقات وہاں کے گورنر مسٹر مرواٹ سے ہوئی اسلام اور عیسائیت کے مختلف اصولوں پر تبادلۂ خیالات کے بعد اس نے حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر لیا۔ اسی کے توسط سے آپ نے مراکو کے مشہور لیڈر غازی عبدالکریم سے جیل میں ملاقات کی اور یہاں سے نیوزی لینڈ اور وہاں سے آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ نیوزی لینڈ میں اپنے عزیز شاگرد مسٹر ایچ عباسی کو تبلیغِ دین کا کام سپرد کیا اور آسٹریلیامیں مشہور فاضل ڈاکٹر محمد عالم کو مبلغِ دین بنایا۔
1936ء میں ایک بار پھر جنوبی مشرقی ایشیا کا دورہ کیا۔ اس وقت آپ فرانسیسی چین اور چین میں تبلیغِ دین کا کام انجام دے رہے تھے۔ آپ کے خطبات سننے کے لیے لاکھوں مسلمان، یورپین، چینی اور جاپانی اجلاس میں شرکت کرتے تھے۔ آپ نے شنگھائی اور پیکنگ میں ایک عرصہ تک قیام کیا۔ جاپان کے مشہور شہر کعب کی جامع مسجد کمیٹی نے آپ کو دعوت دی، جاپانی مسلمان آپ کے بیانات کے دل دادہ تھے۔ جاپان کی "اورینشیل کلچرل سوسائٹی، ٹوکیو" نے آپ کو خاص طور پر مدعو کیا اور تقریریں کروائیں۔ یہاں سے آپ حسن البناء (بانی اخوان المسلمین) کی دعوت پر مصر گئے۔ پورے مصر میں آپ نے عربی میں خطبات دئیے۔ مصر کے بعد سیریا، عراق، لبنان، اور بعد میں ترکی تشریف لے گئے۔ ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے بعد آپ پھر یورپ گئے۔ روم میں مشہور شہر وٹی کان سٹی جو پاپائے روم کا صدر مقام ہے وہاں قیام کیا۔ یونیورسٹیوں اور علمی اداروں میں تقریر کرتے رہے۔ پاپائے روم سے ملاقات ہوئی۔ پاپائے روم نے آپ کو ایک عرض داشت بھی پیش کی اور آپ نے بھی اسے دعوت دی کہ دنیا بھر میں پھیل رہے کمیونزم کے سیلاب کے خلاف میری مہم میں شامل ہو کر خدا کی وحدانیت اور اس کے وجود کی تبلیغ کی جائے۔
روم میں قیام کے بعد حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ اسپین، پرتگال، جرمنی اور ہالینڈ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد پھر انگلستان کے دورے پر روانہ ہوئے وہاں سے امریکہ کا رُخ کیا جہاں آپ کی آمد کا بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ مشرقی امریکہ کے مفتیِ اعظم حضرت عبدالرحمٰن لسٹر نے آپ کی شاگردی اختیار کی۔ شکاگو کے دورانِ قیام 8 امریکی مسلمان ہوئے۔ ایک دن نیویارک کے سٹی ہال میں عالمانہ خطاب فرمایا۔ جلسہ برخاست ہونے کے بعد 92امریکیوں نے اسلام قبول کیا۔ جن میں مشہور سائنس داں جارج اینٹن بیوف اور ان کی بیگم بھی شامل ہیں۔ واشنگٹن میں مختلف علمی اداروں میں لیکچرز کے دوران 36 انگریز جو کالجوں میں پروفیسر تھے مع اہل و عیال کے مسلمان ہوئے۔
میجی گن یونیورسٹی کے ہونہار ماہر تعلیم عبدالباسط نعیم نے بھی آپ کی شاگردی اختیار کی اور حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں ایک میگزین The Islamic World and U.S.A جاری کیا جو اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔ جنوبی امریکہ میں بھی آپ نے اسلام کی تبلیغ فرمائی سرینام کی انجمن "سرینام مسلم اسوسی ایٹ" آپ ہی کی یادگار ہے۔ کینیڈا میں گیارہ علمی اداروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آپ نے لیکچرز دئیے۔ اومٹن، کوبیک، اور مونٹریل میں ایک عرصہ تک قیام کیا۔ امریکہ کے دورانِ سفر میں برٹش ویسٹ انڈیز بھی تشریف لے گئے۔
حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کے قائم کردہ چند اہم ترین ادارے جو گرم جوشی سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں آج بھی مصروفِ عمل ہیں وہ یہ ہیں۔ حنفی مسجد کولمبو، مسجد ناگریا جاپان، سلطان مسجد سنگاپور، عربک یونی یورسٹی ملایا وغیرہ،۔ مشہور رسائل و جرائد و اخبارات دی مسلم ڈائجسٹ ڈربن جنوبی افریقہ، اسٹار آف اسلام سیلون، پاکستان نیوز جنوبی افریقہ، اسلامک ورلڈ اینڈ یو ایس اے امریکہ، اور دیگراسکولیں،لائبریریاں، تبلیغی ادارے اور سوسائٹیاں ہزاروں سے متجاوز ہیں جو اس وقت بھی دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہیں جن کے سرخیل و پیشوا حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی ذاتِ مقدسہ ہے۔
حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ ایک اچھے شاعر بھی تھے اور مصنف بھی، آپ کی تصانیف میں ہائی وائی لاگ وتھ برناڈشا، اِن پریچول کلچر اِن اسلام، مسلم رول اِن سائنٹفک ڈسکوریز، ردّ قادیانی، ذکر حبیب، جوانی کی حفاطت، کتابِ تصوف، اسلام اور اشتراکیت، معجزہ مذہب اور سائنس کی نظر میں،امن کا پیغام وغیرہ کافی مشہور ہیں۔
الحاصل یہ کہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ دنیا کے تقریباً ہر حصے میں پہنچے اور اسلامی سوسائٹیاں، مساجد، مداراس، مکاتب، علمی ادارے، اسکول، کالج، مشنریاں، لائبریریاں، یتیم خانے، وغیرہ قائم کیں اور ہزاروں جلسوں اور کانفرنسوں میں خطاب کیا۔ سائنس اور فلسفہ کے ماہرین اور یونیورسٹیوں کے فضلا سے معرکہ آرا علمی و مذہبی مباحثے کیے۔ اسلامی لٹریچر ہر ملک کی زبان میں شائع کراتے رہے۔ لاکھوں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا جن میں بہت سے آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں کوشاں ہیں اور بہ حیثیت مبلغ کام کر رہے ہیں۔
خلیفۂ اعلیٰ حضرت مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کو عمر بھر کی اِس دینی و اسلامی خدمت کا صلہ یوں ملا کہ آپ کو 22 ذی الحجہ 1374ھ بمطابق22اگست 1954ء کو مدینۂ منورہ میں وفات نصیب ہوئی اوراسلام کے اس مقدس صدیقی فرزندِسعید کو یہ سعادت میسر آئی کہ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قدموں میں جنت البقیع شریف میں دفن ہوئے
جس خاک کی خوشبو لیے تا عمر سرگرداں رہا
پائی وہیں آسودگی عبدالعلیمِ قادری
صدیقۂ صدیق کے قدموں کی جنت پا گیا
صدیقیت سچی تری عبدالعلیمِ قادری
حاصل مطالعہ کتب
تذکرۂ علمائے اہل سنت
تذکرۂ اکابر اہل سنت
خلفائے اعلیٰ حضرت
حاشیہ الاستمداد
جادہ و منزل
امام احمد رضا اربابِ علم و دانش کی نظر میں، ماہ نامہ ترجمان اہل سنت،کراچی کے چند شمارے
ماہ نامہ استقامت کانپور کے چند شمارے
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.