You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
انسان میں خو اہشات پیدا ہوتی رہتی ہیں یہ انسانی نفس کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ایک بندہ ان تمام کو فوراًعملی جامہ نہیں پہنا سکتا اور ان میں سے بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کی اجازت انسان کو معاشرہ، مذہب اور اخلاقی اقدار ہرگز نہیں دیتیں۔ پھر یہ انسانی ذہن کے کسی کو نے میں ذخیرہ ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ عام طور پر انسان سمجھتا ہے کہ وہ ان کو بھول چکا ہے۔ دراصل وہ اس کے ذہن میں لا شعوری طور پر موجود رہتی ہیں۔ لیکن ان کا اظہار یا احساس عام حالا ت میں نہیں ہو تا۔ اس معاملے کا تعلق کسی حادثے سے یا کسی خو شی سے ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان پر کبھی کو ئی مشکل وقت آن پڑتا ہے اور اُسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرا کوئی ساتھی نہیں ہے ۔ میں پوری دنیا میں اکیلا ہوں میری مجبوریوں کو کوئی نہیں سمجھتا اور کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ تو ان حالات میں اس کے لاشعور میں دبی ہوئی خواہشات ایک انتقامی جذبے کی صورت میں سر اُ ٹھا تی ہیں۔ اس کے ہو ش و حواس پر جذبات کا غلبہ طاری ہونے لگتا ہے۔ وہ ان واقعات کو یاد کرتا ہے جب کبھی اُس نے دوسروں پر احسا ن کیا ہو۔ ان کو یا د کرکے وہ اپنے کیے ہوئے اچھے اعمال کو اپنی بے وقوفی گر دانتا ہے۔ وہ دلیل کے ساتھ سوچتا ہے کہ یہ معاشرہ بے حس ہے۔ تمام لو گ بے وفا ہیں۔ ان سے بھلائی کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے یہ جذبات اس کو فکری طور پر مشتعل کر دیتے ہیں۔ اس کے پاس نفرت کے بیج بونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس دوران میں انسان اگر اپنی انا کی خاطر یا جذباتی دباؤ کی وجہ سے کسی منفی سوچ کے دامن میں اپنی پنا ہ ڈھونڈ لے تو یہ صورت حال اس کی آئندہ زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ وہ موڑ ہوتا ہے جب وہ قوت فیصلہ اور قوت اراردی سے محروم ہو تاہے۔ اُس وقت اُسے اچھائی اور برائی میں کوئی تمیز نظر نہیں آتی۔ ایسے کڑے وقت میں اگر وہ صبر کا دامن تھام کر فوری فیصلہ کرنے سے باز رہے تو مستقبل میں اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
دراصل یہ کچھ آزمائش ہوتی ہیں۔ انسان کو ان میں گزرنا پڑتا ہے اور ان سب معاملا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے موقع پر حوصلہ ہار دینا مایوسی ہے ۔ مشکل اوقات میں مایوس ہو جانے کانام بہادری نہیں ہے۔ انسان کو ثابت قدم رہنا چاہیے اور اللہ عزوجل پر بھر وسہ کرنا چاہیے۔ دوسروں میں مثالی شخصیات ڈھونڈنے کی بجائے خو د ایک نمونہ بن کر لو گوں کی راہنمائی کا سبب بن جانا چاہیے ۔ اس قوم کو اب امید کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ جب انسان دُکھی ہو، پریشان ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ لو گوں کے دُکھ درد جانے۔ نجانے کتنے لو گ بے شمار مسائل کا شکا ر نظر آئیں گے۔ ہمارے دور میں اخبارات اور خبریں نشر کرنے والے آلا ت سے عوام الناس کے دُکھ درد سے جب دُنیا کے مسائل سُنے گا یا دیکھے گا تو وہ اپنے مسائل بھول کر خدمت خلق کا سو چنا شروع کر دے گا کہ اس کے تو مسئلے ہی چھوٹے چھوٹے تھے۔ شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ نماز ادا کرناہے تو اس کے لیے وہ مسجد کی راہ پکڑے گا اور مسجد میں نما ز پڑھ کر وہ رب العالمین کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔ تو خو د بخو د اس کے دل سے بوجھ اُتر جائے گا اور وہ لو گوں کو نیک نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دے گا۔ اس کو انسانیت سے محبت ہونا شروع ہوجائے گی ۔ وہی لو گ جنہیں تھوڑی دیر پہلے وہ گھر میں بیٹھ کر بُرا بھلا کہہ رہا تھا اب وہی اُسے اللہ کی بہترین مخلوق کے طور پر نظر آرہے ہوں گے۔ مسجدمیں جاکر بڑے بڑے سخت دل لو گ بھی نرم ہو جاتے ہیں۔ تو مایوسی کا شکار بندہ ان کے اپنائیت بھر ے رویے سے ضرور متاثر ہو گا اور اس کی زندگی میں آسانی کی مختلف راہیں کھلتی چلی جائیں گی اور وہ دوبارہ ایک معتدل، متوازن اور مطمئن انسان کے طور پر زندگی بسر کرنا شروع کر سکتا ہے اور اگر وہ جذباتی دباؤ کے وقت منفی جذبوں کی بھینٹ چڑھ جائے تو اس کی موجوں کا رُخ تخریبی سرگرمیوں کی طرف مُڑ سکتا ہے اور وہ نفرتوں کو پروان چڑھا سکتا ہے ۔ وہ اپنا طرز زندگی بدل سکتا ہے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک چیز بطور محتسب رکھی ہے۔ وہ ہے اس کا ضمیر۔ جب کبھی انسان بے باک ہو جائے۔ اور حقائق سے انحراف کرنا شروع کر دے اور غیر مہذب سر گرمیوں میں ملوث ہو جائے تو کبھی نہ کبھی اس کے اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ سب اعمال غلط ہیں۔ مجھے یہ سب چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ایک دوسرا اہم مو قع ہوتا ہے۔ اس موقع پر بھی اس کی قوت فیصلہ کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر وہ حقائق کو مان کر اپنی زندگی کو واپس درست راہ پر لے آئے تو وہ مضبوط قوت ارادی کا حامل بن سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ اس موڑ پر بھی بہک جائے تو یہ بھی نفس و شیطان کی ایک چال ہوتی ہے اور شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے۔ پھر انسان اپنے دشمن کا دوست کیوں بن جاتا ہے۔ وہ اپنے دشمن کے ساتھ جنگ کیوں نہیں کرتا۔ حالانکہ اس کا دشمن تو روز اول سے اعلان جنگ کر کے برسر پیکار ہے اور انسان آخری فیصلہ کرنے سے محروم !
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.