You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حاشیۂ ذہن میں گردش کرتے ایک سلگتے سوال کا جواب
مقصد شہادت اور سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کی بے مثل قربانیاں
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
ماہ محرم الحرام کی متعدد خصوصیات ہیں۔کئی انبیائے کرام کے حالات زندگی کا تعلق یوم عاشورہ سے ہے۔اس ماہ میں روزہ رکھنا، عبادت کرنا، نوافل پڑھنا، شب بیداری کرنابے شمار فضائل و برکات کے حامل ہیں، وہیں یہ مہینہ ایک ایسی عظیم ذات کی یاد بھی تازہ کرتا ہے جسے ہم جگر گوشۂ رسول امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی مہینے میں آپ نے اللہ کی راہ میں بے شمار مصائب و آلام کو برداشت کیاتھا، آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ ہی کے گلشن کو تاخت و تاراج کیا گیا اور آپ نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا کے دین کے لئے اعلائے کلمۃ الحق کے لئے جام شہادت نوش کیا۔یہ سوال حاشیۂ ذہن پر گردش کرتا ہے کہ آخر وہ کون سا جذبہ تھا جس نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، آپ کے اہل بیت اور اسلامی جاں نثاروں کو جان تک قربان کرنے پر آمادہ کیا؟ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے اتنی قربانیاں دینے کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے ایسا کر دکھایا؟اسے سمجھنے کے لیے پہلے بعثتِ مصطفیﷺ کا مقصدجاننا ہوگا، حضور سرورِ کائناتﷺ کس مشن کو کامیاب بنانے کی پوری زندگی کوشش کرتے رہے اور اس کے لیے بے شمار قربانیاں پیش کیں، پہلے اسے جاننا ہوگا۔اللہ عزوجل کا ارشاد ہے،ترجمہ:’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اللہ کافی ہے گواہ۔‘‘ (آیت 28، سورئہ فتح، پ 26)
اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاجدار مدینہﷺ کی بعثت کا مقصد دین اسلام کا تمام مذاہبِ باطلہ پر غلبہ ہے، دین اسلام کی سر بلندی ہی آقائے کریمﷺ کی تشریف آوری کا مقصد اور ساری حیات آپ کا یہی مشن رہا، اسی مشن کی کامیابی کے لئے آپ کو دندان مبارک شہید کرانے پڑے، اسی کی خاطر آپ کا جسم اقد س زخمی ہوا، اسی کی خاطربلال حبشی کو تپتی ہوئی ریت پر کھینچا گیا، اس مقصد کے حصول کے لئے صحابۂ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے کئی معرکوں میں جام شہادت نوش کیا، حتیٰ کہ اپنی ساری مکی ومدنی زندگی میں آقائے دوجہاںﷺ اسی مشن کی کامیابی کے لئے جسمانی اذیتیں اور دلی تکلیفیں برداشت فرماتے رہے پھر آپ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشن کی بقا کا کام اپنے ذمہ لیا، آپ کے بعد فاروق اعظم نے اس مشن کو زندہ رکھا، پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر مولائے کائنات اسلام کی سربلندی کے مشن کو عام کرتے رہے، غرضیکہ 60ھ تک یہ مشن تمام تر کامیابیوں کے ساتھ زندہ رہا لیکن 60ھ کے بعد صورت حال بدلنے والی تھی کیوںکہ اب امارت کا دعویٰ یزید نامی ایک ایسے شخص نے کردیا تھا جس کی زندگی میں اسلام کے اثرات بھی نظرنہیں آرہے تھے۔
یعنی ایک ڈکٹیٹر جو تارک صلوٰۃ بھی تھا اور فاسق وظالم بھی، وہ بد عملی کا مجسمہ تھا، اس نے خلافت سنبھالنے کا دعویٰ کردیا، اس مقام پر امام عالی مقام نے سوچا کہ اگر یزید تخت خلافت پر بیٹھ گیا تو سارے معاشرے میں بد عملی پھیل جائے گی، رسول اللہﷺ کا مشن متاثر ہو جائے گا، جس کے لئے آپ نے اور آپ کے جاںنثار صحابہ نے بے شمار قربانیاں پیش کیں، سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ چاہے جوہوجائے لیکن یزید کی بیعت قبول نہ کروںگا، اپنے پیارے نانا جان کے مشن کو زندہ رکھنے کے لئے ایک باوفا اور امین نواسے کی حیثیت سے سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان اور اپنا گھر بار لٹا کر پرچم اسلام کو بھی سربلند کیا اور اس کی معاشرتی قدروں کو بھی بحال کیا، اگر یزید کے ہاتھ پر امام عالی مقام بیعت کرلیتے تومعاشرے میں گناہوں کا رواج ہوجاتا، شراب نوشی، ترک صلوٰۃ وغیرھا گناہوں کو جرم نہ سمجھا جاتا۔ کیونکہ یہ ساری دنیا جانتی ہے’’ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘ باد شاہ جیسے ہوتے ہیں رعایاویسی بن جاتی ہے، حکمرانوں کی بد عملی عوام کو بد کردار بنا دیتی ہے اور سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ یہ بھی گوارا نہیں کرسکتے کہ ان کے ناناجان کے امتی ان کے تشکیل کردہ نظام اور ان کے بنائے ہوئے قانون حیات سے دست بردار ہوجائیں، اس لئے امام عالی مقام نے اپنی گردن تو کٹا دی لیکن اپنا ہاتھ یزید پلید کے ہاتھ میں نہ دیا اور قیامت تک آنے والے سارے مسلمانوں کو یہ پیغام دیاکہ اگر تم چاہتے ہوکہ اسلام کا پرچم سر بلند رہے، اس کا نظام زندہ رہے تو پھر ہر لمحہ اسلام کے راستہ میں قربانیاں دینے کے لئے تیار رہو اور جان دینا پڑے تو جان دیدو لیکن اپنے آپ کو کبھی بھی باطل کے حوالہ مت کرو۔
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کے یومِ شہادت پر ان کا ذکرِ خیر کریں اور ان کے نام اور ان کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرنے والے تمام نفوسِ قدسیہ کے نام نذر و نیاز کر کے اپنی عقیدت اور محبت کا ثبوت دیںاور خاص کر آپ کے مقصدو مشن کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں ۔(استفادۂ خصوصی:عظمت ماہ محرم اور امام حسین رضی اللہ عنہ، از:مولانا شاکر نوری صاحب)
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.