You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
امام الاولین والآخرین :اللہ تبار ک وتعالیٰ نےپو ری کا ئنا ت کی تخلیق فرما ئی،پھر اپنی حکمت کے مطا بق در جا ت ومقا صد قا ئم فرما ے ۔قر آن وسنت کے بیان اور اپنے مشاہدات کی رو شنی میں ایک مسلمان یہ بات اچھی طر ح جا نتا ہے کہ کا ئنا ت میں پا ے جا نے وا لے اٹھا رہ ہزا ر عالم اپنے درجات اور مقا صد میں ایک دوسرےسے جدا اور الگ ہیں۔چنا ں چہ یہ جملہ ہر خا ص وعام کی زبا ن پر وقتِ ضرورت بغیر کسی ادنیٰ تا مل کے جا ری ہو تا ہےکہ’’انسان اشرف المخلو قا ت ہے‘‘
انسا نو ں میں انبیاء ورسل علیہم السلام کا مر تبہ سب سے بلندہے پھر حضرا ت انبیا ے کرام کے فضا ئل ومنا قب بھی یکساں نہیں ،قر آن پا ک نے اس طر ف رہنما ئی کرتے ہو ے ار شا د فرمایا :’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘(جماعت رسل میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی) ہما رے نبی ﷺ کو خداے تعالیٰ نے اما م الاولین والآخرین منتخب فرمایا۔اللہ تبا رک وتعالیٰ نے اپنے محبو ب کے صد قے منصب اما مت دیگر حضرا ت کو بھی عطا فرما یا۔ حضرت ابر اہیم علیہ السلام سے ار شا د فرمایاگیا:’’آإِنّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً‘‘(میں آپ کو پیشوا بنا رہا ہوں )اس پر حضرت ابر اہیم نے ذا ت ذو الجلال سے عر ض کیا : ’’وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘‘(اور میری اولا د سے ؟)جوا ب ملا : ’’لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ‘‘(ظا لم میرا عہدنہیں پا سکتے )اس آیت کے تحت مفسرین کرام نے بیان فرما یا ہے :کا فر یہ منصب حا صل نہیں کر سکتا ،اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سے اللہ تعالیٰ جسے چا ہے منصب اما مت عطا فرما دیتا ہے ۔
امام کا معنیٰ:لغت میں امام اَمَّ فعل کا مصدر ہے ،اس کامعنیٰ ’’ما یؤتم بہ ‘‘ہے (امام وہ ہو تا ہے جس کی پیر وی کی جا ے )امامت کادا ئرہ اختیا ر واقتدا ر جدا جدا ہے ،زمان ومکان کے اعتبار سے اس کی اپنی وسعتیں ہیں ہما رے نبی ﷺ امام الائمہ ہیں ،امام خوا ہ اس کا تعلق کسی بھی زمان ومکان سے کیوں نہ ہو ہما رے نبی اس کے امام ہیں ،خلیفہ رعا یا کا امام ہو تا ہے ۔حا صل کلا م یہ کہ ہر وہ انسان جو کسی کی نگر انی اور اصلا ح کر تا ہےوہ اس کا امام کہلا تا ہے ۔
اصطلا ح میں اس انسان کو امام کہا جا تا ہے جس کی اقتدا میں نماز درست ہو تی ہے ۔امامت کبریٰ کے لیے بھی اس لفظ کا استعمال کیا جا تا ہے ،اس معنیٰ کےا عتبا رسے امام خلیفۃ المسلمین ہو تا ہے ۔دینی مقتدیٰ پر بھی اس لفظ کا اطلا ق کر تے ہو ے امام الفقہا ، امام المحدثین وغیرہ بو لاجا تا ہے ۔امام مسجد بھی لو گو ں کا پیشو ا اور رہنما ہو تا ہے ، لوگ اس کی ہدایت سے اپنے دینی معا ملا ت میں نصیحت پا تے ہیں لہٰذا اسے بھی اس مبا ر ک لقب سے پکا را جا تا ہے ۔
امام کی فضیلت اوراس کا منصب:در حقیقت امام لو گو ں کو نما ز پڑ ھا تا ہے ،تعلیم دیتا ہے ،وعظ ونصیحت کر تا ہے ،امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو مشغلہ بنا تا ہے ۔ان امو ر کی عظمت وشان میں کس عا قل کو اختلا ف ہو سکتا ہے ؟،نماز پڑھا نے سے اللہ کا فریضہ بطو ر کما ل ادا ہو تا ہے ،تعلیم سے جہا لت کے پر دے چاک ہوتے ہیں،وعظ ونصیحت سے غفلت دو ر ہوتی ہے جب غفلت دو ر ہو جا تی ہے تو انسان شر یعت پر عمل کرنے سے کترا تا نہیں ہے بلکہ اس پرخو ش طبعی کے ساتھ عمل کر تا ہے ،امربا لمعروف اورنہی عن المنکر سے اللہ ورسول جل مجدہ وﷺ کی اطا عت وفرما ں بر دا ری کا غلغلہ ہو تا ہے ،نا فرما نی دم تو ڑ تی ہے ،عزت عام ہو تی ہے اور ذلت سمٹ کر رہ جا تی ہے ،بھلائیاںبڑھتی ہیںاوربرائیاںکم ہو تی ہیں ۔
اگر آپ مذکو رہ با لانظر یہ سے منصب امامت پر غو ر فرمائیں گے تو یہ با ت بخو بی وا ضح ہو جا ے گی کہ امامت صر ف رکوع سجد ے کر ادینے کانام نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک عظیم ذمہ دار ی،اور بہت بڑے مشن کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ کسی دا عی حق اور حا می دین ہی کو یہ تو فیق عطا فرما تا ہے کہ وہ اس ذمہ دا ری کو کماحقہ نبھا ے اور اپنی ذمہ دا ری سے سبک دو ش ہو ۔
جن خو ش نصیبوں کو یہ تو فیق میسر آتی ہے ان کےسا منے جاہل زا نوے ادب طے کر تے ہیں ،غا فل خو اب غفلت سے بیدا ر ہو تے ہیں، طالب حق ان کی رہنما ئی میں آگے کی منزلیں طے کر تاہے،ان کی تو جہا ت سے نہ جا نے کتنے نفو س کو تر قی درجات حا صل ہو تی ہے ،ان کی تعلیما ت سے دل ستھرے ہوتے ہیں ،اخلا ق سنور تے ہیں،امر با لمعروف اورنہی عن المنکر کا عمو می ما حول بنتا ہے جس کی بر کت سے سنت مصطفیٰ بر گ وبا ر لا تی ہے ،بد عت اور با طل رسوما ت منہ چھپا تی ہیں ،اور لو گ ان نائبین مصطفیٰ کے ذریعہ مصطفیٰ کریمﷺ کے فیض سے با لو اسطہ فیض یا ب ہو تےہیں ،سعا دتیں پاتے ہیں جیسا کہ دنیا کسی وقت امام الانبیا ء کے فیض سےبلاو ا سطہ ما لاما ل ہو تی تھی ۔اس منصب کی عظمت کے پیش نظر اللہ کے حبیب ﷺ نے ائمہ حضرات کے لیے با ر گا ہ پر و ر دگا ر میں خصو صی دعا کی۔ حدیث کے الفا ظ ہیں :’’الامام ضا من والمؤذن مؤتمن اللہم ارشد الا ئمہ واغفر المو منین ‘‘امام ضما نتی اور موذن امانت دا ر ہے ۔ اےاللہ ! تو امامو ں کو اپنی رشد و ہدایت نصیب فرما اور مو منین کی مغفرت فرما۔
امام وجہ اتحا د:امامت کے کثیر فو ائد میں سے ایک عظیم فا ئدہ،قوم کا اتحا د واتفا ق اور اس کا ایک جھنڈے تلے جمع ہو نا ہے ،شر یعت مطہر ہ کا مطمح نظر یہ ہے کہ قوم اگر اپنے افر ا د کے اعتبا ر سے قلیل بھی ہو تب بھی اس کو کسی قا ئد اور امام کے ماتحت ہو نا چاہیے اس دعو ے پر کثیر دلائل قا ئم کیے جا سکتے ہیں لیکن ہم یہاں صرف ایک حد یث پیش کریں گے : حضور ﷺ نے مسلما نو ں کو اس با ت پر ابھا را ہے بلکہ انہیں اس با ت کا حکم دیا ہے کہ وہ آپس میں ایک امام متعین کریں اگر چہ وہ تین ہی افرا د ہوں ۔
آپ ﷺ فرما تے ہیں :’’اذا کا نو ا ثلا ثۃ فلیؤ مھم احد ھم واحقھم با لاما مۃ اقر ئھم ‘‘ ترجمہ: جب مسلمان تین ہو ں تو ان میں سے ایک ان کی اما مت کر ے اوران میں زیا دہ پڑ ھالکھا اما مت کے زیادہ لا ئق ہے ،جب تین مسلما نو ں سے مطا لبہ ہے کہ ان میں ایک اما م ہو۔لہذا جب مسلمان کثیر تعدا د میں ہو ں گے اس وقت اس مطالبہ میں کتنی شد ت ہوگی ۔اہل نظر اس کو اچھی طر ح جا نتے ہیں ۔
حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان( تین لو گو ں میں سےایک کوامام متعین کرنا ) سے عبا ر ۃ النص کے طو ر پر اسلام کا مز اج اور اس کے محا سن کو بخو بی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام کیسا مذہب مہذ ب ہے کہ وہ اپنے تین افرا د کو بھی متفر ق ،منتشر اور بکھرا ہو ا دیکھنا پسند نہیں کر تا بلکہ ا نہیں حکم دیتا ہے کہ وہ کسی امام کی اقتدا کر یں ۔
اور دلا لتہ النص کے طو ر پر حضور ﷺ کا یہ فرمان دنیا کے سا منے کتنا حسین منظر پیش کر تا ہے اور لو گو ں کے دلو ں میں اسلام اور مسلما نو ں کی کیسی عظمت بٹھا تا ہے کہ وہ منظر مسلما نو ں کے لیے کتنا دید نی اور با عث مسرت ہو تا ہے اور اعدا ے اسلام کے لیے کتنا مد ہش اور پر یشانی کا با عث ہو تا ہے کہ جب لاکھوں لاکھ کا مجمع فر د وا حد کے ذ ریعہ لگا ئی گئی اللہ اکبر کی ضر ب پر مسحو ر ہو کر رہ گیا ہے ۔امام اپنے ہا تھ بلند کر تا ہے اور دوسروں کو ہا تھ بلند کر نے کا ا شا ر ہ کر تا ہے تو پیچھے کھڑ ی ہو ئی قو م کی پو ری بھیڑ بغیر کسی اختلا ف کے اپنے ہا تھ بلند کر دیتی ہے ،پوری قوم اس کے اشا رو ں پر ایسے عمل کر رہی ہے کہ جیسے کو ئی ٹر یننگ یا فتہ فو رس اپنے کما نڈ ر کے اشا رے پر چلتی نظر آتی ہے ۔ اور کیو ں نہ چلے آخرتو یہ عا لم کے قا ئد اعظم حضور اکر م ﷺ کی تربیت یا فتہ قوم ہی کے افرا د ہیں ۔
یہ حدیث چو ں کہ نما ز کی اما مت سے متعلق تھی اس لیے اس کی تشر یح ہم نے اسی تنا ظر میں کر نے کی کو شش کی ہے لیکن کسی بھی عقل مند پر یہ با ت پو شید ہ نہیں ہو سکتی کہ جب نما ز کے اند ر ایک امام کا ا شا رہ اتنی بڑی اہمیت کا حا مل ہے تو نما ز کےبا ہر امام کی صدا یا امام کا اشار ہ بے معنیٰ اور بے جا ن کیسے ہوسکتا ہے ۔
امام قو م کی ضرو رت:معا شر ے میں پا ئی جا نے والے مہلک امرا ض ،خر ابیاں اور بدعنوا نیاں عمو ما جہا لت ، غفلت اور نفس پر ستی کی گو د میں پر وا ن چڑ ھتی ہیں اور اتنی زیا دہ پھو لتی پھلتی ہیں کہ یہ ایک فسا د بلا خیز بن کر پو ر ے معا شر ے کو اپنا لقمۂ تر بنا لیتی ہیں ،اس کا دا ئرئہ کا ر اتنا وسیع ہو تا ہے کہ کو ئی بھی خشک وتر اس کی گر فت سے باہر نہیں ہو تا ۔ظا ہر سی با ت ہے جب مر ض کسی صحت مند انسان کو اپنا شکا ر بنا تا ہے تو مریض اور مریض کے تیما ر دا ر کسی معا لج کا انتخا ب کر تے ہیں اور اس کے دا من طبابت میں پنا ہ حا صل کر تے ہیں پھر مر ض جتنا شد ید ہو تا ہے ،ڈا کٹر اور معا لج اتنا ہی عظیم در کا ر ہو تا ہے ۔جسما نی امر ا ض کو ایلو پیتھک ،ہو میو پیتھک وغیر ہ دواؤں کے ذر یعہ قابو میں کرنے کو شش کی جا تی ہے ۔
لیکن جب معا شر ے میں جہا لت ،غفلت ،نفس پر ستی ، مطلق العنا نیت ،بد عملی اور بد کر دا ری جیسے امر ا ض اپنا تسلط جماتےہیں ،تورو ح کے مسیحا کی حا جت پیش آتی ہے
ابن مریم ہو ا کر ے کو ئی
میر ے دکھ کی دو ا کر ے کو ئی
ایسے ما حو ل میں کو ئی دا عی ،مبلغ ،عا لم دین کمر ہمت با ند ھ کر کھڑا ہو تا ہے اور جہا لت کو علم شریعت ،غفلت کو وعد وعید ،نفس پر ستی کو خدا پر ستی ،بد عملی اور بد کر دا ری کوبزر گوں کے ذریں نقو ش کے ذریعہ مٹا نے کی سعی پیہم کر تا ہے اور کر تا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی کو شش کا ثمر ہ عطا فرما تا ہے اور کبھی کبھی پو را معا شرہ نو بہا ر شریعت سے معمو ر ہو جا تا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ انسان کو ز ند گی گز ا ر نے کے لیے کھانے پینے کی ضرو رت پڑ تی ہے کھیتی کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے دھو پ اور پا نی کی ضر ورت ہو تی ہے لیکن ایک انسان کو اس سے زیا دہ ضر ورت علم کی ہو تی ہے ۔
اسی لیے امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے ار شا د فرما یا :لو گ کھا نا اور پا نی کے مقا بلے میں علم کے زیا دہ محتا ج ہیں کیو ں کہ کھا نے پینے کی ضر ورت دن میںایک یا دو مر تبہ پڑ تی ہے جب کہ ہر سا نس پر انسان علم کا محتا ج ہو تا ہے ۔
خلا صہ یہ کہ قو م کو ہمیشہ ایک قا ئد کی ضر ورت ہے جو انہیں دین سکھا ے ،خیر پر ابھا رے ،اللہ کی نعمتیں یا د دلا ے ،جنت کی ابد ی عیش وآرام کی امید بند ھا ے ،کبھی جہنم کے عذا ب کو بیان کر کے ان کے رو نگٹے کھڑ ے کر دے ،ان کی حیا ت کا وہ دھا را جو طغیا ن وعصیا ں کی طر ف رو اں دو اں ہے اسے حکیما نہ اندا ز میں اللہ ورسول عز وجل وﷺ کی اطا عت وبند گی اور کا مل سپر دگی کی طر ف مو ڑ دے ،اور مسلمان اپنے لغوی واصطلا حی معنی کے اعتبا ر سے مسلما ن بن جا ے ،گر دن رکھنے والابن جاے،اللہ ورسول عزوجل وﷺ کی رضاپر سر تسلیم خم کر نے والا ہو جا ے ۔
(جاری)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.