You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
رات کا پچھلاپہر تھا ،سارے کا سارا مدینہ نُور میں ڈوبا ہوا تھا۔
اہلِ مدینہ رحمت کی چادر اوڑھے مَحوِ خواب تھے، اتنے میں مُؤَذِّنِ رسول حضرتِ سیِّدُنابِلال حبشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پُر کیف صدا مدینۂ منوَّرہ کی گلیوں میں گونج اٹھی:
آج نَمازِ فجر کے بعد مجاہِدین کی فوج ایک عظيم مُہِم پر روانہ ہورہی ہے۔ مدینۂ منوَّرہ کی مقدَّس بیبیاں اپنے شہزادوں کو جَنَّت کا دولھا بنا کر فوراً دربارِ رسالت میں حاضِر ہوجائیں۔
ایک بیوہ صحابیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے چھ سالہ یتیم شہزادے کو پہلو میں لٹائے سورہی تھیں۔ حضرتِ سیِّدُنابِلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اعلان سن کر چونک پڑیں! دل کا زخم ہَرا ہوگیا، یتیم بچّے کے والِدِ گرامی گُزَشتہ برس غزوۂ بدر میں شہید ہوچکے تھے۔
ایک بار پھرشَجرِ اسلام کی آبیاری کیلئے خون کی ضَرورت درپیش تھی مگر ان کے پاس چھ سالہ مَدَنی مُنّے کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ سینے میں تھما ہوا طوفان آنکھوں کے ذَرِیعے اُمنڈ آیا۔
آہوں اور سسکیوں کی آواز سے مَدَنی مُنّے کی آنکھ کُھل گئی، ماں کو روتا دیکھ کر بیقرار ہوکر کہنے لگا:
ماں !کیوں رو تی ہو ؟
ماں مَدَنی مُنّے کو اپنے دل کا درد کس طرح سمجھاتی! اس کے رونے کی آواز مزید تیز ہوگئی۔ ماں کی گِریہ و زاری کےتَأَثُّر سے مَدَنی مُنّا بھی رونے لگ گیا۔ ماں نے مَدَنی مُنّے کو بہلانا شروع کیا، مگر وہ ماں کا درد جاننے کیلئے بَضِد تھا۔
آخِرکار ماں نے اپنے جذبات پر بکوشِش تمام قابوپاتے ہوئے کہا:
بیٹا! ابھی ابھی حضرتِ سیِّدُنابِلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اِعلان کیا ہے، مجاہِدین کی فوج میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہی ہے۔
آقائے نامدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے جاں نثار طلب فرمائے ہیں۔
کتنی خوش قسمت ہیں وہ مائیں جو آج اپنے نوجوان شہزادوں کا نذرانہ لئے دربارِ رسالت میں حاضِر ہوکر اشکبار آنکھوں سے التجائیں کررہی ہوں گی:
یارسولَ اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہم اپنے جگر پارے آپ کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہیں، آقا! ہمارے ارمانوں کی حقیر قربانیاں قَبول فرمالیجئے، سرکار! عمر بھر کی محنت وُصُول ہوجائے گی۔
اتنا کہہ کر ماں ایکبار پھر رونے لگی اور بَھرّائی ہوئی آواز میں کہا: کاش! میری گود میں بھی کوئی جوان بیٹا ہوتااور میں بھی اپنا نذرانۂ شوق لیکر آقا کی بارگاہ میں حاضِر ہوجاتی۔
مَدَنی مُنّاماں کو پھر روتا دیکھ کر مچل گیا اور اپنی ماں کوچُپ کرواتے ہوئے جوشِ ایمانی کے جذبے کے ساتھ کہنے لگا:
میری پیاری ماں! مَت رو،مجھی کو پیش کردینا۔
ماں بولی :
بیٹا !تم ابھی کمسن ہو، میدانِ جنگ میں دشمنانِ خونخوار سے پالا پڑتا ہے، تم تلوار کی کاٹ برداشت نہیں کرسکو گے۔
مَدَنی مُنّے کی ضد کے سامنے بِالآخِر ماں کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔
نَمازِ فَجر کے بعدمسجدِ نبوی شریف کے باہَر میدان میں مُجاہِدین کا ہُجوم ہوگیا۔ ان سے فارِغ ہوکر سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم واپَس تشریف لا ہی رہے تھے کہ ایک پردہ پوش خاتون پر نظر پڑی جو اپنے چھ سالہ مَدَنی مُنّے کو لئے ایک طرف کھڑی تھی۔
نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرتِ سیِّدُنا بِلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو آمد کا سبب دریافت کرنے کیلئے بھیجا۔
سیِّدُنا بِلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قریب جاکر نگاہیں جھکائے آنے کی وجہ دریافت کی۔
خاتون نے بَھرّائی ہوئی آواز میں جواب دیا: آج رات کے پچھلے پَہر آپ اِعلان کرتے ہوئے میرے غریب خانے کے قریب سے گزرے تھے، اِعلان سُن کر میرا دل تڑپ اُٹھا۔ آہ! میرے گھر میں کوئی نوجوان نہیں تھا جس کا نذرانۂ شوق لیکر حاضِر ہوتی فَقَط میری گود میں یِہی ایک چھ سالہ یتیم بچّہ ہے جس کے والِدگُزَشتہ سال غَزوۂ بدر میں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں میری زندگی بھرکی پونجی یہی ایک بچّہ ہے، جسے سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہوں۔
حضرتِ سیِّدُنا بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پیار سے مَدَنی مُنّے کو گود میں اُٹھا لیا اور بارگاہِ رسالت میں پیش کرتے ہوئے سارا ماجرا عرض کیا۔
سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مَدَنی مُنّے پر بَہُت شفقت فرمائی۔ مگر کمسِنی کے سبب میدانِ جہاد میں جانے کی اجازت نہ دی۔
==========================
(ماخوذاز زلف و زنجیر ص۲۲۲ شبیر برادرز مر کز الاولیاء لاھور )
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.