You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سُوال:
کسی کا بچّہ گود لے سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب:
لے توسکتے ہیں،مگر وہ نامَحرم ہو تو جب سے عورَتوں کے مُعامَلات سمجھنے لگے ، اُس سے پردہ کیا جائے ۔
فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام فرماتے ہیں:
مُراہِق( یعنی قریبُ البُلُوغ لڑکے) کی عمربارہ سال ہے .
(دُّالْمُحتَارج۴ص۱۱۸)
بچّی گود لینا کیسا؟
سُوال:کسی کی بچّی گود لینا کیسا؟ کیا اِس کو بیٹی بنا لینے سے جوان ہونے پر منہ بولے باپ سے پردے کے مسائل میں رعایت ہو جائے گی؟
جواب:
بچّی لینی ہو تو آسانی اِسی میں ہے کہ محرمہ مَثَلاً سگی بھتیجی یا سگی بھانجی لے تا کہ رضاعی (یعنی دودھ کا) رشتہ قائم نہ ہو تب بھی بالِغہ ہونے کے بعد ساتھ رہ سکے مگر بالِغہ ہونے کے بعد گھر کے نامحرموں مَثَلاً سگے چچا یا سگے ماموں جِنہوں نے پالا اُن کے بالِغ لڑکوں سے( جب کہ وہ دودھ شریک بھائی نہ ہوں) پردہ واجب ہو جائے گا ۔
اگر گود لی بچّی نامَحرمہ تھی تو بالِغہ بلکہ قریبِ بُلوغ پہنچے تو اُس کو پالنے والا نامحرم باپ اپنے ساتھ نہ رکھے۔
چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 13 صَفْحَہ412 پر فرماتے ہیں:
لڑکی بالِغہ ہوئی یا قریبِ بُلوغ پہنچی جب تک شادی نہ ہوضَرور اس کو باپ کے پاس رہنا چاہئے یہاں تک کہ نو برس کی عمر کے بعد سگی ماں سے لڑکی لے لی جائے گی اور باپ کے پاس رہے گی نہ کہ اجنبی (یعنی جس سے ہمیشہ کیلئے شادی حرام نہیں اُس کے پاس) جس کے پاس رہنا کسی طرح جائز ہی نہیں،بیٹی کر کے پالنے سے بیٹی نہیں ہو جاتی۔
فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام فرماتے ہیں:
مُشْتَھاۃ(یعنی بالغہ ہونے کے قریب لڑکی) کی کم از کم عمر نو سال ہے۔ ( رَدُّالْمُحتَارج۴ص۱۱۸)
لے پالک سے پردہ جائز ہو نے کی صورت
سُوال:
بچپن سے ہِلے ہوئے بچّوں کے سمجھ دار ہونے پر پردہ نافذ کرناانتِہائی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ کوئی ایسی صورت ہو تو بتا دیجئے کہ بچّہ گود لیں تو جوان ہو جانے پر پردہ واجِب نہ ہو۔
جواب:
اِس کی صورَت یہ ہے کہ جوبچّہ یابچّی گود لی ہے اُس سے دودھ کا رشتہ قائم کر لے۔لیکن دودھ کا رشتہ قائم کرنے میں یہ بات مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اگر بچی گودلینا ہو تو شوہر سے رضاعت کا رشتہ قائم کیا جائے مثلاً شوہر کی بہن یا بھانجی یا بھتیجی اس بچی کو اپنا دودھ پلادے اور اگر بچہ گود لینا ہو تو بیوی اس سے اپنا رضاعت کا رشتہ قائم کرے مثلاً بیوی خود یابیوی کی بہن یابیٹی یا بھانجی یا بھتیجی اس بچے کو اپنا دودھ پلادے۔
اس طرح دونوں صورت میں بیوی اورشوہر دونوں کے لئے پردے کے مسائل حل ہو جائیں گے ۔یہ یاد رہے جب بھی دودھ کا رشتہ قائم کرناہو تو بچے کو (ہجری سن کے حساب سے)دوسال کی عمر تک دودھ پلایا جائے ۔ اس کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں بلکہ ماں کے لئے اپنی سگی اولاد کوبھی دو سال کی عمر کے بعد کودودھ پلانا جائز نہیں لیکن ڈھائی سال کی عمر کے اندر بھی اگر بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے توبھی دودھ کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.