You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
کیایہی شانِ مسلمانی ہے !!؟
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔرضوی
................................
کیا یہی شانِ مسلمانی ہے کہ آپ کے گھر کی خواتین بے پردہ ، اور اس پر ظلم یہ کہ آپ بھی ان کے ہمراہ، افسوس صد ہزار افسوس!! کہاں کھو گئی ہے تمہاری غیرتِ ایمانی ---- اللہ واحد و قہارعزوجل کا حکم ہے :"اے نبی! اپنی بی بیوں اورصاحب زادیوں اور مسلمان عورتوں سے فرمادو! کہ اپنی چادروں کاایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی جائیں اوراللہ بخشنے والامہربان ہے۔" (سورہ احزاب۵۹)
رسول اکرم ﷺ کافرمانِ عالی شان ہے کہ
:" وہ مرد دیوث ہیں جو اپنی عورتوں کو بے پردہ گھماتے ہیں ۔" ---- اور ہمارا عمل ، ہمارا فعل ، ہمارا کردار اس قرآنی حکم اور حدیث کے فرمان کے بالکل برعکس ہے۔
یاد رکھیں! آپ کو ، ہم کو ، سب کو ، میدانِ محشر میں اللہ عزوجل کے حضور جانا ہے ۔ جہاں احکام خداورسول جل و علا وصلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کرنے والے کے لیے سخت ترین سزائیں ہیں اور ان پر عمل کرنے والے کے لیے عطیم ترین انعامات ہیں۔ بے پردگی کیا ہے ، احکامِ خداورسول جل و علاسے انحراف ہے، اس کی بھی سخت اور ہولناک سزائیں ہیں ، جس کے بارے میں اللہ و رسول جلا و علا وصلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ اپنی عورتوں کو بے پردہ نہ گھمائیں اور بے پردہ گھومنے والی عورتوں پر اللہ عزوجل کی لعنتیں۔
مگر!!حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شہیدانِ کربلا کا نام لینے والے، ان سے محبت و عقیدت کا دعویٰ کرنے والے اپنی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں اور بیویوں کو نہ صرف بے پردہ گھومنے پھرنے کی اجازت دیں بل کہ خود اپنے ساتھ گھمائیں ، تعزیہ ، شیر باگ، عَلم ، سواری ، ڈھول ، تاشے ، باجے ، گانے ، عورتوں اور مردوں کے ملے جلے میلے ٹھیلے، فرضی کربلا اورمحرم الحرام کی دوسری بے ہودہ محفلوں میں خود بھی جائیں اور خواتین اسلام کو بھی پہنچائیں۔ افسوس افسوس ! توبہ توبہ! خدا کی پناہ ! الامان والحفیظ !! اللہ عزوجل اپنی امان میں رکھیں ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
اے شہیدانِ کربلا رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام لیواؤ! اِن ایام میں خرافات و بدعات اور منکرات سے خود بھی بچیے ، ماؤں ، بہنوں اور اعزّہ و اقربا کو دور رکھیے ، علماے اہل سنت و جماعت کے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے موضوع پر ہوئے بیانات اور مواعظِ حسنہ کو سماعت فرمائیے ۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم کی تلاوت کیجیے، اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور شہَداۓ کربلا رضوان اللہ اجمعین کی ارواحِ طیبات کو ایصالِ ثواب کیجے ۔۔۔۔۔۔ یومِ عاشورہ کو ایک دن اور ملاکر دو دن روزہ رکھیے ، قبرستان جائیے، دعاے عاشورہ پڑھیے، نوافل کا اہتمام کیجیے، یتیموں کے سروں پر ہاتھ رکھیے، بیواؤں ، مظلوموں ، فقیروں اور غریبوں کی دادرسی کیجیے، بیماروں کی عیادت کیجیے کہ ان ہی اعمالِ صالحہ میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔
اللہ عزوجل ، رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل ہر مسلمان کو شیطانِ لعین اور نفس امارہ کی شرارتوں سے محفوظ و مامون رکھے ۔ (آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہٖ وبارک وسلم)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.