You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جوشخص دنیا میں دوغلاپن کرے گاقیامت میں اس کی دوزبانیں ہوں گی
کسی کے سامنے تعریف کرنااُ سے تیز چھری سے نقصان پہنچانے کے برابرہے قسط نمبر۴
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،(M.A.,B.Ed,MH-SET)مالیگائوں
۲۶؍فروری ،۳؍اور۱۷؍مارچ کو قارئین شامنامہ کی نذر زبان کی آفتوں پر راقم کا مضمون آیاتھا۔۱۰؍مارچ کوحالات حاضرہ پر ’’اجتماعی نکاح،بیاضوں کی تقسیم،تعمیری کام ،وارثین کی مدداور بینززکے سلسلے پرایک تلخ جائزہ‘‘نامی مضمون شائع ہوااور۳۱؍مارچ کو سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور صدیقی دستورالعمل کے اہم اصول پر مضمون شائع ہوا۔اس ہفتے زبان کی مزیدچندآفتوں کوتحریر کیا جارہا ہے تاکہ زبان کے صحیح ودرست استعمال کی طرف ہماری توجہ مبذول ہو اور زبان کی آفتوں سے بچنے کا حتی الامکان جذبہ بھی پیدا ہو۔
غیبت کرنا:زبان کی دسویں آفت’’غیبت‘‘ ہے اور یہ بلا عالمگیر ہے۔حق تعالیٰ نے قرآن مجید میںغیبت کرنے والوں کومرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے والے سے تشبیہ دی ہے۔(سورہ الحجرات،پ ۲۶،آیت ۱۲،کنزالایمان)اور حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:غیبت سے پرہیز کرو کیوں کہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔زانی کی توبہ تو قبول کرلی جاتی ہے مگر غیبت کرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے،جس کی غیبت کی گئی ہے۔حق سبحانہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ جو غیبت سے توبہ کرکے مرے گا وہ سب سے آخر میں بہشت میں جائے گا اور اگر بغیر توبہ کے مرجائے تو سب سے آگے دوزخ میں داخل ہوگا۔
غمازی کرنا:زبان کی گیارہویںآفت غمازی(ایک کی بات دوسرے سے لگانا)اور سخن چینی(دورخاپن)ہے۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ:ذلیل بہت طعنہ دینے والا،دورخاپن کرنے والا۔ایک اور مقام پر فرمایا۔ترجمہ:خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب لگائے اور پیٹھ پیچھے بدی کرے(سورۂ الھمزۃ،پارہ؍۳۰،آیت؍۱،کنزالایمان)ان آیتوں سے مراد دورخاپن ہے۔اللہ کے رسول نے اس آدمی کو بدترین شخص فرمایا جو لوگوں میں فتنہ پیدا کرے۔ایک حدیث پاک میں ہے کہ جنت کے قریب آٹھ قسم کے لوگ نہیں پہنچ سکیں گے،غماز بھی اسی میں سے ایک ہے۔منقول ہے کہ بنی اسرائیل قحط سے دوچار ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس دعائے باراں کے لیے گئے،لیکن دعا کے باوجودبارش نہیں ہوئی تب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ ائے موسیٰ!میں تمھاری دعا قبول نہیں کروں گاکہ تمھاری جماعت میںایک غماز موجود ہے۔موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیاالٰہی!مجھے اس کی نشانی بتا تاکہ میں اسے جماعت سے نکال دوں،خدائے تبارک تعالیٰ نے فرمایاکہ جب میں غمازسے ناخوش ہوںتومیںکس طرح غمازی کروں۔تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پرہرایک نے غمازی سے توبہ کی اور پھر بارانِ رحمت کا نزول ہوا۔
لگائی بجھائی کرنا:زبان کی بارہویں آفت دولوگوں کے درمیان لگائی بجھائی (دورخی)کرنا ہے یعنی ہر ایک سے ایسی بات کہناجواس کوپسند آئے،پھرہرایک کی بات دوسرے تک پہنچادینا،یہ بات غمازی سے بھی بدتر ہے۔حضور اکرم ﷺنے فرمایا:جوشخص دنیا میں دوغلاپن کرے گاقیامت میںاس کی دوزبانیںہوںگی۔ایساشخص جودشمن سے دوستی رکھتا ہے اس کوچاہیے کہ جب وہ کسی سے ایک بات سنے تو خاموش ہوجائے،ایک کی بات دوسرے سے نہ لگائے اور ہرایک سے اس طرح نہ کہے کہ’’میں آپ کاخیر خواہ ہوں‘‘۔
مدح وستائش کرنا:لوگوں کی مدح وستائش کرنا زبان کی تیرہویں آفت ہے اور تعریف میںغلو کرنایہ بھی آفت ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے مخلوق کی تعریف میں غلو کیاقیامت کے دن اس کی زبان اتنی لمبی ہوگی کہ زمین سے لگ جائے گی اور وہ اس کو روندتا ہواگرپڑے گا۔ایک شخص نے حضور انور ﷺ کے روبرو کسی شخص کی تعریف کی،حضور ﷺ نے فرمایا:افسوس کہ اس کی گردن ماردی۔آپ نے پھر فرمایا کہ اگرتجھے کسی کی مدح کرنا ضروری ہے تویوںکہہ کہ میں ایساسمجھتا ہوں اورعنداللہ اس کو عیب سے برا خیال کرتا ہوںاگرتو اس خیال میں سچاہے تب اس کا حساب خدا کے ساتھ ہے۔تعریف کے نقصان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد رسول ﷺہے کہ کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے پاس تیز چھری لے کر جائے۔حاصل کلام یہ ہے کہ تعریف سن کر خوش ہونے کی بجائے تعریفی کلمات سے بے زاری اختیار کی جائے۔لوگوں نے ایک بزرگ کی تعریف کی وہ کہنے لگے یا الٰہی!یہ شخص میرا قرب اس چیزکے وسیلے سے ڈھونڈرہا ہے جس سے میں بیزار ہوںاور تیری بارگاہ کی تعریف کا خواہاںہوں‘‘۔کچھ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا:بار الٰہا!مجھ سے مواخذہ نہ فرمانااس بات پرجویہ لوگ کہتے ہیںاور میری اس خطا کو بخش دینا جس کو یہ لوگ نہیں جانتے اور مجھ کویہ لوگ جیسا سمجھتے ہیں اس سے بہتر فرمادے۔ایک شخص حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو دل سے دوست نہیں رکھتا تھا اس نے نفاق سے آپ کی تعریف کی توآپ نے فرمایا:تونے زبان سے جو کچھ مجھے کہامیںاس سے کم ترہوں اور دل میں تومجھے جیسا سمجھتا ہے اس سے میں بہتر ہوں۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، ایم ایچ سیٹ،جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.