You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سُوال:گھر کے فرد یا دوست وغیرہ کی کوئی بات سُن یا دیکھ کر کیا عام آدمی بھی اُس کو کافِر کہہ سکتاہے؟
جواب:جب کسی بات کی كُفْر ہونے کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو
مَثَلاً کسی مفتی صاحِب نے بتایا ہو یا کسی مُعتبر کتاب مَثَلاً بہارِ شریعت یا فتاوٰی رضویہ شریف وغیرہ میں پڑھا ہو تب تو اُس کُفری بات کو کُفر ہی سمجھے ورنہ صِرف اپنی اٹکل سے ہرگز ہرگز ہرگز کسی مسلمان کو کافر نہ کہے۔
کیوں کہ کئی جُملے ایسے ہوتے ہیں جن کے بعض پہلو کُفْر کی طرف جا رہے ہوتے ہیں اوربعض اسلام کی طرف اور کہنے والے کی نیّت کا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اُس نے کون سا پہلو مُرادلیا ہے۔
ميرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجدِّدِ دين وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرحمٰن فرماتے ہیں :
ہمارے ائمّہ رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی کلام میں 99 اِحتِمال کُفرکے ہوں اور ایک اسلام کا تو واجِب ہے کہ احتِمالِ اسلام پر کلام محمول کیا جائے جب تک اس کا خِلاف ثابِت نہ ہو۔
=============
(فتاوٰی رضویہ ج14ص604،605)
صَدْرُالشَّرِیْعَہ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرتِ علامہ مَولانامُفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃُاللہِ القوی فرماتے ہیں:
کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اُس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل(کہنے والے)نے معنئ کفر کا ارادہ کیا
مَثَلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مُراد یہی(کفریہ معنی والی)ہے تو (اب )کلام کا مُحْتَمَل(مُحْ۔تَ۔مَل) ہونا (یعنی کلام میں تاویل کا پایا جانا)نفع نہ دیگا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافِر ہونا ضَرور نہیں۔
( بہارِ شریعت حصّہ 9 ص 173 )
بِغیر عِلم کے فتوٰی دینا کیسا؟
سُوال:جو مفتی نہ ہونے کے باوُجُود بِغیر علم کے فتویٰ دے اُس کیلئے کیا حکم
ہے؟
جواب:ایسا شخص سخت گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہے۔
سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے:
جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
===============
(اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص517 حدیث8491)
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23صَفْحَہ 716 پر فر ماتے ہیں:
سند حاصِل کرنا تو کچھ ضَرور نہیں، ہاں باقاعِدہ تعلیم پانا ضَرور ہے(تعلیم خواہ) مدرَسہ میں ہو یا کسی عالِم کے مکان پر۔
اور جس نے بے قاعِدہ تعلیم پائی وہ جاہِلِ مَحض سے بدتر ، نِیم مُلّا خطرۂ ایمان ہو گا۔
ایسے شخص کو فتویٰ نَوِیسی پر جُرأَت حرام ہے۔
اور اگر فتویٰ سے اگر چِہ صحیح ہو،(مگر) وجہُ اللہ مقصود نہیں(یعنی دُرُست فتویٰ ہو تب بھی اگر اللہ کی رِضا مطلوب نہیں) بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہے تو یہ دوسراسَبَبِ لعنت ہے کہ آیاتُ اللہ کے عِوَض ثَمَنِ قَلیل(یعنی شعَزَّوَجَل کی آیتوں کے بدلے تھوڑا بھاؤ) حاصِل کرنے پر فرمایا گیا :
اُولٰٓئِکَ لَا خَلٰقَ لَھُمْ فِی الۡاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللہُ وَلَا یَنۡظُرُ اِلَیۡھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیۡہِمْ۪ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۷﴾ (پ 3 آل عمران 77)
ترجمہ كنز الایمان: آخِرت میں ان كا كچھ حصّہ نہیں,اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ)نہ ان سے بات كرے نہ ان كی طرف نظر فرمائے قِیامت كے دن, اور نہ انہیں پاك كرے اور ان كیلئے درد ناك عذاب ہے۔
غَلَط مسئلہ بتانا سَخْت کبیرہ گناہ ہے
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 711 تا 712 پر فرماتے ہیں:
جُھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید کبیرہ (گناہ) ہے
اگر قَصداً ہے تو شریعت پر افتراء(یعنی جھوٹ باندھنا) ہے اور شریعت پرافتراء اللہ عَزَّوَجَلَّ پرافتراء ہے ،
اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَایُفْلِحُوۡنَ ﴿ؕ69﴾ (پ 11 یونس 69)
ترجمہ كنز الایمان: وہ جو اللہ (عَزَّوَجَلَّ)پر جھوٹ باندھتے ہیں ان كا بھلا نہ ہوگا۔
اگر عالم بھول کر غلط مسئلہ بتا دے تو گناہ نہیں
اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہِل پر سخت حرام ہے کہ فتویٰ دے ۔
ہاں اگر عالِم سے اِتِّفاقاً سَہو(بھول) واقِع ہوا اور اُس نے اپنی طرف سے بے اِحتِیاطی نہ کی اور غَلَط جواب صادِر ہوا تو مُواخَذَہ(مُ۔آ۔خَ۔ذَہ)نہیں مگر فرض ہے کہ مُطَّلع ہوتے ہی فوراً اپنی خطا ظاہِرکرے، اِس پر اِصرار کرے تو پہلی شِق یعنی اِفتراء (جھوٹ باندھنا)میں آ جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاوٰی رضویہ ج23 ص711،712)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.