You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جہانِ رضویت کا یہ روشن ستارہ ڈوب گیا ۔ ۔
تحریر:۔محمد احمد ترازی
یہ 1986ءکی بات ہے جب پہلی مرتبہ ہمیں لاہور جانے کا موقع ملا،حضرت داتا گنج بخش کے مزار پُر انوار پر حاضری کے بعد گنج بخش روڈ پر مختلف مکتبوں کے دورے کے دوران ایک چھوٹی سی دکان میں واقع ”مکتبہ نبویہ“بھی دیکھا،اُس وقت معلوم ہوا کہ اِس مکتبہ کے روح رواں اہلسنّت کے عظیم عالم اور متعدد کتابوں کے مصنف”صاحبزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب“ ہیں،فاروقی اُس وقت مکتبہ پر موجود نہیں تھے ،اِس لیے ملاقات نہ ہوسکی۔ بعد میں کئی مرتبہ لاہور جانا ہوا ،آخری بار جنوری 2006ءمیں لاہور گئے،لاہورکا یہ دورہ خالصتاً مطالعاتی دورہ تھا، جس کا مقصداکابر علماءسے ملاقات کرکے اپنی کتاب”تحریک تحفظ ختم نبوت سیّدنا صدیق اکبر تا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی“ کیلئے رہنمائی و مواد کی دستیابی تھا،چنانچہ جناب اقبال احمد فاروقی صاحب سے بھی ملاقات کیلئے برادرم السیّد عقیل انجم کے ہمراہ مکتبہ نبویہ پہنچے،مگر فاروقی صاحب مکتبہ پر موجود نہیں تھے ۔
ہمارا دورہ چونکہ طویل تھااور وقت کم تھا ، ہمیں ننکانہ و فیصل آباد بھی جانا تھا ،لیکن اِس کے باوجود ہم نے کئی گھنٹے فاروقی صاحب کا انتظار کیا ،مگر کسی مصروفیت کی وجہ سے آپ تشریف نہ لائے،یوں ہماری کم نصیبی کہ اِس مرتبہ بھی فاروقی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی اور ہم علامہ اقبال احمد فاروقی صاحب کی زیارت سے محروم رہے۔دورے سے واپسی پر ہم نے جناب اقبال احمد فاروقی صاحب کو خط لکھا اور اپنی حاضری کا مقصد ومدعا بیان کیا،25فروری 2006ءکو حضرت کا جوابی محبت نامہ موصول ہوا،جس میں حضرت نے ہماری کوششوں کو سراہتے ہوئے کامیابی کی دعا فرمائی اور اپنی مفید تجاویز وآراءسے بھی نوازا۔فاروقی صاحب کا وہ خط آج بھی ہمارے پاس بطور یادگار محفوظ ہے،19دسمبر 2013ءکو بھائی توفیق جونا گڑھی سے یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب انتقال فرماگئے ہیں۔
پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب4جنوری 1928ءکو گجرات سے چودہ میل دور ایک چھوٹے سے گاوں ”شہاب دیوال“ میں مولانا انور پیر فاروقی کے گھر پیدا ہوئے، ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد اور تایا مولانا نور پیر فاروقی سے حاصل کی، پرائمری تعلیم قریبی گاؤں گھوڑی (ونا سنگھ) سے حاصل کی اورمڈل قریبی قصبے دولت نگر سے پاس کیا۔آپ کے گھر کا ماحول دینی تھا اور والد محترم چونکہ گاوں کی مسجد و مدرسے وابستہ تھے ،اُن کے اکابر علماءسے خصوصی تعلقات تھے، جس کی وجہ سے علاقے میں علماءکی آمدورفت رہتی تھی،گھرانے کے دینی ماحول اور روحانی تعلیمات کے فیضان نے پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب کی طبیعت گہرا اثر ڈالا،جوزندگی کے آخری لمحات تک قائم رہا۔
انیس سو سینتس(1937ء)میں اقبال احمد فاروقی اپنے والد کے ہمراہ لاہور آئے اور صاحب تفسیر نبوی مولانا محمد نبی بخش حلوائی نقشبندی کے حلقہ تلمیذ میں شامل ہوگئے ،لاہور میں اقبال احمد فاروقی صاحب کو دارالعلوم حزب الاحناف میں درس نظامی کے اساتذہ سے استفادے کا بھی موقع ملا،1939ءضلع بہاولنگر میں واقع مدرسہ تعلیم الاسلام( جس کے بانی حافظ غلام حسین صاحب تھے) کی شہرت انہیں وہاں لے گئی،یہاں حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں میں بھی آپ متعارف ہوئے۔اقبال احمد فاروقی بعد میں منشی فاضل کے امتحان کیلئے لاہور واپس آگئے،1944ءمیں آپ نے فاضل فارسی کا امتحان پاس کیا،یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ بنی بخش حلوائی کے نامور شاگرد ،مرید اور جانشین مولانا باغ علی نسیم اپنے استاد کی مسجد اور مدرسہ کی نگرانی کررہے تھے،انہوں نے اقبال احمد فاروقی کی حوصلہ افزائی کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے میں بہت تعاون کیا،چنانچہ فاضل فارسی کے امتحان میں کامیابی کے بعد آپ نے 1948ءمیں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا،آپ نے 1950ءمیں انٹر کیا اور 1952ءمیں گریجویشن بھی مکمل کرلیا۔اِس دوران کچھ عرصہ کیلئے آپ نے مایہ ناز خطاط مولانا عبدالرشید عادل گڑھی سے فن کتابت بھی سیکھی ۔
اقبال احمد فاروقی صاحب کا زمانہ طالب علمی لاہور کی سیاسی زندگی کے عروج کا زمانہ تھا،جگہ جگہ جلسے،جلوس اور اجتماعات ہوتے تھے ،جس میں وقت کے مشہور خطیب اور سیاستداں شریک ہوتے،ایک طرف کانگریس اور اُس کی حمایت میں سرگرم مجلس احرار ،جمعیت علماءہند اور مکتبہ دیوبند کے علماءتھے تو دوسری جانب مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناح کی حمایت میںپیر جماعت علی شاہ صاحب،پیرآف مانکی شریف،پیر صاحب زکوڑی شریف،تونسہ ، سیال اور بیربل شریف کے روحانی خانوادے سمیت دیگر علماءو مشائخ اہلسنّت مطالبہ پاکستان کی پرزور حمایت میں اپنے شاگرد، مریدین اور عوام اہلسنّت کے ہمراہ میدان عمل میں موجود تھے،فاروقی صاحب کو اِن جلسوں میں شرکت کا موقع ملا، دیگر نوجوان طبقے اور طلباءکی طرح اقبال احمد فاروقی بھی مولانا محمد بخش مسلم بی اے کی علمی وادبی شخصیت اور شعلہ بیانی سے بہت متاثر تھے۔
قیام پاکستان کے بعد لاہور کی علمی وادبی دنیا میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی ،ہندوستان کے مختلف شہروں سے علماءکرام،شعراءاور ادیبوں نے لاہور کو اپنا مسکن بنایا،جس کی وجہ سے اقبال احمد فاروقی صاحب کے حلقہ احباب میں نئے نئے اہل ِعلم افراد شامل ہوئے اورآپ نے اِن اہل علم کی رفاقت میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا،درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ آپ نے فاضل عربی، ایم اے فارسی اور ایل ایل بی کی اسناد بھی حاصل کیں،آپ نے کچھ عرصے تدریسی خدمات بھی انجام دیں مگر فکر معاش اقبال احمد فاروقی کومدارس دینیہ کی نورانی فضاوں سے نکال کر سرکاری ملازمت کی طرف لے گئی اور آپ سرکاری نوکری سے وابستہ ہوگئے،آپ کا یہ سرکاری سفر پنجاب کے محکمہ صنعت لیبر ویلفیئر کے19گریڈ آفیسر کی حیثیت سے 1988ءمیں اختتام پزیر ہوا،لیکن اپنی سرکاری زندگی کے دوران بھی فاروقی صاحب کا علمائے کرام ، مشائخ ِعظام اور اہل ِعلم سے قریبی تعلق برقرار رہا اور انہیں علماءومشائخ کے قریب بیٹھنے اور اُن کی نگاہ ِ التفات سے فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع ملا۔
انیس سو ارٹالیس(1948ء)میں جب اکابرین ِاہلسنّت نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جمعیت علماءپاکستان قائم کی تواقبال احمد فاروقی صاحب نے جمعیت کے پروگراموں کو کامیاب بنانے میں بھر پور کردار اداکیا ،اُنہوں نے جمعیت کے تحت منعقدہ شریعت کانفرنس کی تیاری میں دن رات ایک کردیا،1953ءکی تحریک ختم نبوت میں آپ نے سرکاری ملازمت کے باوجود تحریک میں فعال کردار ادا کیا اور تحریک میں حصہ لینے اور قابل اعتراض تقریر کی پاداش میں کوئٹہ بدری کی سزا بھی پائی،مگر آپ نے ہمت و استقامت اور پامردی سے حالات کا مقابلہ جاری رکھا، اقبال احمد فاروقی صاحب نے تبلیغی خدمات کے ساتھ اخبارات ورسائل میں قلمی ناموں سے مضامین بھی لکھے اور مفتی محمد حسین نعیمی کی زیرادارت جاری ہونے والے رسالے ”عرفات“ میں نائب مدیر اعلیٰ کی خدمات بھی انجام دیں۔
اقبال احمد فاروقی صاحب نے 1968ءاپنے مخلص ساتھی مولانا باغ علی نسیم کے ساتھ مل کر” مکتبہ نبویہ“ کی توسیع کے کام کا آغاز کیا اور اہلسنّت کی کتب کو نئے انداز سے طبع کرانا شروع کیا،جسے اہل ذوق نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا اور بہت پسند کیا، اِس علمی جدوجہد میں جناب محمد عالم مختار حق اور اور جناب بشیر ناظم ایم اے نے آپ کا بھر پور ساتھ دیا،بہت جلداقبال احمد فاروقی صاحب کی کوششوں کی بدولت” مکتبہ نبویہ“ نے علم وادب کے ایک ایسے مرکز کی حیثیت حاصل کرلی،جہاں ہر وقت ارباب علم ودانش کا جمگھٹالگا رہتا تھا۔اپنی بے بصاعتی کے باوجود پیر زادہ اقبال احمد فاروقی گذشتہ 25سالوں سے ماہنامہ ”جہاں رضا“ کی اشاعت میں سرگرم رہے ، آج اِس رسالے کے قارئین کا حلقہ پاکستان سے نکل کر ہندوستان، امریکہ، جنوبی افریقہ، کینیڈا، عرب امارات اور یورپ کے بسنے والوں تک پہنچ چکا ہے، یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ماہنامہ ”جہاں رضا“ وہ رسالہ ہے جو اپنے آغاز سے ہی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے افکار و نظریات کا ترجمان رہا ، اِس رسالے میں فاضل بریلوی کی علمی بصیرت اور سیرت وکردارپر چالیس ہزار سے زیادہ مقالات شائع ہوچکے ہیں،جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
یہ اقبال احمد فاروقی ہی تھے جنھوں نے مولانا محمد شریف نوری ،مولانا انوار الاسلام ،اور پیر کرم شاہ صاحب الازہری کوگنج بخش روڈ پر مکتبہ اسلامیہ،مکتبہ حامدیہ اور ماہنامہ” ضیائے حرم“ کا دفتر قائم کرنے پر آمادہ کیا۔اِس طرح گنج بخش روڈ بازار علم ودانش بن گیا جہاں ہروقت علماءوطلباءکتابوں کی تلاش میں رکتے اور اپنی علمی تشنگی مٹاتے۔1967ءمیں اقبال احمد فاروقی صاحب نے حکیم محمد موسیٰ امرتسری ،مولانا محمد شفیع رضوی،محمد عارف ضیائی اور مولانا باغ علی نسیم کے ہمراہ” مرکزی مجلس رضا“ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا،اِس مجلس نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی شخصیت کے علمی گوشوں کو مقبول و متعارف کرانے کیلئے جلسے جلوس اور سیمینار ترتیب دیئے، اہل ِعلم سے مقالات و مضامین لکھوائے اور بے شمارکتابیں و پمفلٹ ہزاروں کی تعداد میں شائع کرکے مفت تقسیم کرائیں،اِس میں کچھ شک نہیں کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی افکار و نظریات کو عوام الناس میں متعارف کرنے میں ”مرکزی مجلس رضا “نے جو کردار ادا کیا اُس کی مثال نہیں ملتی،یہ ”مرکزی مجلس رضا“ ہی تھی جس کی بدولت آج پاکستان ہی میں کیا پورے عالم اسلام میں” نغمات رضا “کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
اقبال احمد فاروقی صاحب کو اپنی زندگی میں کتابیں لکھنے اور تراجم کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی،اُن کی 60 ساٹھ سے زائد تالیفات و تصنیفات اہل علم کے مطالعہ میں آئیں ، جنہیں نے حد پسند کیا گیا،انہوں نے مکتبہ نبویہ کے زیر انتظام تفسیر نبوی ( پنجابی) کا اردو ترجمہ،تذکرہ علمائے اہلسنت،الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین،نزھۃ الخواتر،تکمیل الایمان،مرج البحرین،زبدة الآثار،مقامات صوفیاء، قصر عرفان،خزینة الاصفیاء،الدولة المکیة،کشف المحجوب،مجالس علماء،فکر فاروقی، نسیمِ بطحا، باتوں سے خوش بو آ ئے... جیسی کتابیں یادگار شائع کیں۔
پیر زادہ اقبال احمد فاروقی صاحب کو اہل علم و دانش کے ساتھ ساتھ میر علی احمد خان تالپور جیسے معروف سیاستدانوں کے ساتھ بھی اٹھنے بیٹھنے کا بھی موقع ملا، حقیقت یہ ہے کہ فاروقی صاحب بلند پایہ ادیب،باکمال خطیب ،نباض وقت اور ایک درمند انسان تھے ،انہیںعربی، فارسی، اردو اور پنجابی میں کمال دسترس حاصل تھی،وہ جمعیت علماءپاکستان کے رکن ، مرکزی مجلس رضا لاہور کے سربراہ اور ماہ نامہ” جہانِ رضا“ کے مدیر اعلی بھی رہے،اللہ کریم نے انہیں بے شمار انعام واکرام سے نوازا،یہ اُن کی دینی خدمات کی برکت تھی کہ ربّ کریم نے اپنے بندوں کے دلوں میں اِس فقیر بے نوا کی محبت ڈال دی،وہ جہاں بھی گئے عزت و احترام سے سرفراز ہوئے، لوگوں نے انہیں دل و جان سے چاہا۔آج علم وادب اور جہانِ رضویت کا یہ رخشندہ ستارہ میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم دین شہید کے قریب آسودہ خاک ہے ۔
خدا رحمت کند ایں عالمان پاک طینت را
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.