You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسلامی تاریخ کے تین واقعات سے براہ راست آسمان سے زمین پر آنا جانا ثابت ہے
مختلف اسفار اور سائنسی حقائق کے تناظرمیں اسریٰ اور معراج کے سفر کی منفرد حکمتیں
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،(MA,B.ED,MH-SET)مالیگائوں
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک انسان مصروفِ سفر ہے۔انسان کا سفر علم ِالٰہی سے شروع ہوتا ہے۔علم ِالٰہی سے عالم ِارواح کا سفر،عالم ِارواح سے باپ کی پُشت کا سفر،پُشت ِ فادر سے رحم ِ مادر کا سفر اور پھر رحم ِ مادر سے دنیاوی سفر۔ اس سفر کا اختتام خالق کائنات کی بارگاہ میں پہنچنے پر ہوگا۔انسان کے ظاہری سفر کا آغاز تمام انسانوں کے جد امجد سیدنا آدم علیہ السلام کی ذات سے ہوتا ہے۔آج بھی انسانی سفر کا یہ سلسلہ دراز ہے۔لوگ اپنے سفر نامے بھی تحریر کرتے ہے۔ان سفر ناموں میں سفیر اپنے مشاہدات،تحقیقات اور موجودہ حقائق کو تحریر کرتا ہے ، ساتھ ہی قدرت کے سربستہ رازوں کو عیاں کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتاہے۔ہر سفیر اپنے تجربات ومشاہدات ،نتائج وحقائق اور اپنی آرا ونظریات کی روشنی میں اپنے سفرناموں کو سپر دقلم کرتا ہے۔دنیا میں متعدد سفرنامے لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔مثلاً:تاریخی سفر نامے،تہذیبی وثقافتی سفر نامے ،تجارتی سفر نامے،ادبی سفرنامے،عالمی سفر نامے،تبلیغی سفر نامے اور تفریحی سفر نامے وغیرہ وغیرہ۔ ہر سفر نامے کی قدر وقیمت اپنی جگہ مسلم ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ سفرناموں کی حیثیت کب تک قائم رہے گی؟ دنیا اس سے کب تک استفادہ کرسکے گی؟اکناف عالم میں یہ سفرنامے کب تک اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے؟جواب بالکل سیدھا اور صاف ہے کہ جن مقامات کا سفر کیاگیا ہے جب تک ان مقامات کا وجود قائم رہے گا تب تک ان سفر ناموں کی حیثیت باقی رہے گی۔جیسے کسی نے تاج محل،دیوارِ چین ، کلاسیو،پیساکا مینار،اہرام مصر،ایفل ٹاور یا دوسری کسی اورجگہ کا سفر کیااور سفر کے بعد سفر نامہ تحریر کیاتوان سفر ناموں کی حیثیت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک دنیا میں یہ عجائبات موجود رہیںگے۔جس دن دنیاکے نقشے سے ان کا وجود ختم ہوگیا اس دن ان سفر ناموں کی حیثیت زبردست متاثر ہوگی۔ان سفرناموں کی حیثیت کتابوں میں محفوظ تاریخ کی سی تو ہوگی مگر اب ان سے کوئی استفادہ نہیں کرسکتااورنہ ہی ان میں بتائے گئے خطوط پر چل کر کوئی ان کے نظارے سے اپنی آنکھیںٹھنڈی کرسکتا۔غرضیکہ سفرناموں کی اصل حیثیت مقامات ِ سفر کے وجود تک باقی ہوتی ہے،بعد میں وہ صرف علمی وتاریخی ورثہ بن جاتے ہے۔
سفر کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ایک سفر وہ ہوتا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور دوسرے وہ سفر جو کسی کی دعوت یابُلانے پر ہوتاہے۔ تمہیدی کلمات میں ہم نے عرض کیاکہ رسول اکرم ﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد اسفار فرمائے۔ان اسفار میں مرکزی حیثیت ’’سفر معراج ‘‘کو حاصل ہے۔یہ سفر سیاح لامکاں ﷺنے خود نہیں کیابلکہ خالق ارض وسما نے اپنے محبوب مکرم کو لامکاں کا سفر خود کروایا۔خالق کائنات نے اس ایک سفر میں وجہِ تخلیق کائنات کو دوسفر کرائے۔ ایک وہ سفر جب نبی مکرم، فخر مجسم، شافع امم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے گئے جو ’’سفر اسرائ‘‘ ہے اور دوسرا سفر وہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمان و مکان کی حدوں سے بلند ہو کر سدرۃ المنتہیٰ اور عرشِ معلّٰی سے بلند ہوکر لامکاں تشریف لے گئے یہ ’’سفر معراج‘‘ ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب رب تعالیٰ اپنے حبیب کو لامکاں بلانا چاہتا تھا تو پھر مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر کیوں کرایا گیا؟براہِ راست اُم ہانی کے مکان سے سواری سدرۃ المنتہیٰ کیوں نہیں پہنچ گئی؟اگر اس سوال پر غور وخوض کیا جائے تو اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسے دو واقعات اور نظر آیئنگے جن میں آسمان سے زمین پر آنا اور زمین سے آسمان کی طرف جانا ثابت ہے۔ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر تشریف لائے اور روح اللہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین سے آسمان کی طرف اُٹھائے گئے۔تاریخ اسلام میں آنا تو ایک واقعے سے ثابت ہے مگر جانا دو واقعے سے۔ان دونوں واقعات میں جانے کی جگہ مشترک ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آسمان کی طرف اٹھائے گئے تو بیت المقدس کی سرزمین سے اور معراج کے دولہا ،سیاح لامکاںا ﷺبھی آسمان پر بُلائے گئے تو بیت المقدس کی دھرتی سے۔ان واقعات کو پڑھنے کے بعد گزشتہ دو سالوں سے ایک سوچ میں ڈوباہواتھا کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟وہ رب جو ’’کُن ‘‘فرماکر ساری دنیا کی تخلیق فرمانے کی قدرت رکھتا ہے کیاوہ اس بات پر قادر نہیں کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین سے ہی اس رسول کو قرب خاص میں بُلایاجاتاجو وجہِ تخلیق کائنات ہیں؟یقینا رب قادر ِمطلق ہے،وہ ہر چاہے پر قادر ہے مگر اس کے کاموں میں صدہا حکمتیں ہیں،حساس روحیں ان حکمتوںکاادراک کرلیتی ہیںاور قدرت کی طرف سے عطا کردہ اشاروں کنایوں میں غوروخوض کے ذریعے قدرت کے رازِ سربستہ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیںاور جو کوشش کرتا ہے وہ گوہر مرادکو پالیتا ہے۔اسی لیے اللہ پاک نے قرآن کریم میں دو سو پچاس مقامات پر تحقیق وتفتیش اور فکروعمل کی طرف رغبت دلائی ہے۔ذہن میں پیدا اس خلجان کا جواب مجھے ماہ رمضان 2014ء میں روزنامہ انقلاب ممبئی میں شائع ہونے والے قسط واری مضمون ’’انبیاء سیریز‘‘میں ملا۔اس میں یہ جملہ لکھا تھا جس کا مفہوم ہے ’’خلا میں جانے کے لیے راستہ بیت المقدس سے ہوکرگزرتا ہے اور تمام خلائی سیارے اسی راستے سے ہوکر گزرتے ہیں۔‘‘اس سائنسی تحقیق کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جنت سے دنیا میں آنے اور جانے کا راستہ ہے۔(واللہ ا علم باالصواب)مگر افسوس اس بات کا ہے کہ غیروں نے راستہ دریافت کیا اس لیے وہ محض ایک خلائی راستہ ہے اور اگر مسلمان قرآن کریم کی روشنی میں اس راستے کی تلاش کرتے تو ہم دنیا کوخلائی راستہ بھی بتاتے اور قرآن واحادیث کی تعلیمات بھی۔اس قسم کی اسلامی دعوت کے یقینا مثبت اور امید افزا نتائج برآمد ہوتے ۔ شاید یہی حکمت رہی ہو خدائے تعالیٰ کی کہ دونوں انبیائے کرام کوایک جگہ سے آسمان پر بلایاگیا ۔
اس سفر کا دوسرا حصہ سفرِ معراج ہے۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ سفر نامے کی حیثیت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک جس چیز کا مشاہدہ کیا ہو وہ باقی رہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو کن کن چیزوں کا مشاہدہ کروایا۔ اس ضمن میں احادیث مبارکہ ہماری رہ نمائی کررہی ہے کہ سفر معراج میں رسول گرامی وقار ﷺنے جنت کی سیر کی اور جہنم کا مشاہدہ کیا۔یعنی ایسی نادر ونایاب چیزوں کی سیر اور مشاہدہ کیا جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ ہی کسی کے وہم وگمان میں ان کاتصور آیا ہے۔اور سب سے بڑی بات مصطفی کریم ﷺ نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کیا۔جنت وجہنم رب کی پیدا کردہ ہے اور رب جب تک چاہے گا ان کا وجود باقی رہے گا اور رب کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔معلوم ہوا مصطفی کریم ﷺ کے سفر نامے کی حیثیت زمانی یا لمحاتی نہیں ہے بلکہ اس سفر نامے کی حیثیت ہمیشہ کے لیے مسلم ہے بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ جب تک رب کی ذات موجود ہے تب تک اس سفر نامے کی حیثیت باقی رہے گی اور رب کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔
ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ سفیر خود سفر کرتے ہیں اور اپنا سفر نامہ خود لکھتے ہیں۔یہاں سفر کرایا بھی خدا نے ہے اور سفر نامہ بیان بھی خدا نے کیا ۔اور ایسی کتاب میں بیان کیا جو اس کا کلام ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔اب ہمیں چاہئے کہ اس سفر سے متعلق قرآن کریم واحادیث رسولﷺمیں جو خطوط بتائے گئے ہیں ،ان ہی پر اپنی زندگی گزاریںاور آخرت میں جنت کی سیر اور دیدارِ الٰہی سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی کریں۔اللہ پاک علم وعمل کی توفیق عطا فرمائے۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، ایم ایچ سیٹ،جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.