You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تخلیق ِانسانی کا مقصد معرفتِ الہی ہے اور معرفت ِالہی کا مبنیٰ ( بنیاد ) مشاہدۂِ تجلیات ِحسنِ لامتناہی (خدائے تعالیٰ کے لامحدود حسن کی تجلیات کا مشاہدہ کرنا)۔
اس مقصدِ عظیم کے تصور نے انسان کو ورطۂ حیرت (انتہائی حیرت کی حالت میں ) میں مبتلا کر دیا ۔
وہ ایک ایسے ضعیف ونادار اجنبی مسافر کی طرح حیران تھا جسے کروڑوں میل کی دشوار گزار راہیں درپیش ہوں اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ اس کے پاس موجود نہ ہو۔
وہ عالمِ حیرت میں زبانِ حال سے کہتا تھا :
الہی!تیری معرفت کی منزل تک کیسے پہنچوں ؟
میں کمزور ضعیف البنیان (پیدائشی کمزور) اور پھر مجھے بہکانے کے لئے قدم قدم پر شیطان ۔وہ پریشان ہو کر سوچتا تھا کہ ضعف کو قوت سے کیا نسبت ، امکان (مخلوق ) کو وجوب (خالق)سے کیا واسطہ، محدود کو غیر محدود سے کیا علاقہ ،کہاں حادث (نئی چیز جو پہلے نہ ہو،فانی) کہاں قدیم، کہاں انسان کہاں رحمن ،نہ اس کے حسن وجمال کی تجلیوں تک میری نگاہیں پہنچ سکتی ہیں ، نہ میں اس کے دیدارِ جمال کی تاب لاسکتا ہوں۔
انسان اسی کش مکش میں مبتلا تھا کہ قدرت نے بروقت اس کی دستگیری فرمائی اور روح ِدو عالم حضرت محمدصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آئینۂ وجود سے اپنے حسن ِلامحدود کی تجلیاں ظاہر فرما کر اپنی معرفت کی راہیں اس پر روشن کر دیں۔ ( یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی ٔ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کواپنی ذات و صفات کا مظہرِ اتم بنا کر انسان پر اپنی معرفت کی راہیں کھول دیں کہ جس نے رب کے حسن و جمال اور قدرت کو دیکھنا ہووہ حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھ لے۔)
صلوۃ وسلام ہو اس برزخِ کبریٰ (برزخ سے مراد وہ شیٔ جو دو اشیا کے درمیان واسطہ ہوچونکہ سرکار علیہ السلام خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں لہذا حقیقتِ محمدی برزخ ہے۔ ) حضرت محمد مصطفی علیہ وآلہ التحیۃ والثناء پر جس نے؛
- ضعف ِانسانی کو قوت سے بدل دیا۔
- حدوث کو قدیم کا آئینہ بنادیا ۔
- امکان کو بارگاہ ِ وجوب میں حاضر کر دیا ۔
- مکان کا رشتہ لامکان سے جوڑ دیا۔ محدود کو غیر محدود سے ملا دیا یعنی بندہ کو خدا تک پہنچا دیا۔
حق یہ ہے کہ
رخسارِ محمدی آئینہ ٔجمالِ حق ہے اور خدوخالِ مصطفی مظہرِحسنِ کبریا ۔ (یعنی حضورعلیہ السلام کا حسن و جمال اور صفات اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال اور صفات کا مظہر ہیں۔) پھر کس طرح ممکن ہے کہ ایک کا انکار دوسرے کے اقرار کے ساتھ جمع ہو جائے۔
اگر حق کے ساتھ باطل ، نور کے ساتھ ظلمت، کفر کے ساتھ اسلام کا اجتماع متصور ہو تویہ بھی (یعنی حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا انکار اللہ تعالی کا انکار نہ ہو۔ ) ممکن ہو گا۔ جب وہ محال ہے تویہ بھی محال ۔
بنابریں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ
حسنِ محمدی کا انکار جمالِ خداوندی کا انکار اور بارگاۂِ نبوت کی توہین حضرتِ الوہیت (شانِ خداوندی) کی تنقیص ہے۔
شان ِالوہیت کی توہین کرنے والا مؤمن نہیں تو گستاخِ نبوت کیونکر مسلمان ہو سکتاہے۔
کوئی مکتبۂ خیال (فرقہ) ہو ہمیں کسی سے عناد نہیں البتہ منکرینِ کمالاتِ نبوت اور منقصینِ شانِ رسالت (شانِ رسالت گھٹانے والے)سے ہمیں طبعی تنفر (فطری نفرت)ہے۔
اس لئے کہ وہ آئینۂ جمالِ الوہیت میں عیب کے متلاشی ہیں اور ان کا یہ طرزِ عمل نہ صرف مقصدِ تخلیقِ انسانی کے منافی ہے بلکہ آدابِ بندگی کے بھی خلاف اور خالقِ کائنات سے کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.