You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ہندوستان کی آزادی میں علمائے حق نے جو قربانیاں پیش کی ہیں اُسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ آج ان وفاداروں کا کہیں ذکر نہیں کیا جاتا ہاں ذکر کیا جاتا ہے تو ان غدّارانِ وطن کا جنھوں نے انگریزوں کے ٹکڑوں پر گزارا کیا اور انگریزوں کا نمک کھایا۔ علمائے دیوبند کے بارے میں آج کل اس جھوٹ کو اتنا زیادہ بولا جارہا ہے کہ وہ انگریزوں کے سخت مخالف تھے اور اُنہوں نے وطنِ عزیز کی آزادی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یادمحبانِ وطن کے نام سے جلسے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اکابر علمائے دیوبند مولوی قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند)، مولوی رشید احمد گنگوہی ، مولوی اشر ف علی تھانوی، مولوی اسماعیل دہلوی اور سیّد احمد رائے بریلوی جیسے غدّارانِ وطن اور برطانوی حکومت کے ایجنٹوں کا قصیدہ پڑھ کر ان پر لگے انگریز نوازی اور ملک دشمنی کے الزامات کو ہلکا کیا جائے لیکن حقیقت کو کبھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ تاریخ کے اوراق ہمیشہ صداقت تسلیم کرنیوالوں کی رہبری کرتے رہیں گے ۔ غدّاروں کو وفادار نہیں بنایا جاسکتا۔ ’’یادِ محبان وطن‘‘ کے نام پر جلسہ لیکر دیوبندی لاکھ کوشش کریں کہ اپنے اکابرین کے پاپ کو چھپالیں لیکن وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ حقیقت ہر حال میں خود کو منواکر رہے گی۔ آج نہیں تو کل سہی لیکن اتنا ضرور ہے کہ قوم جب بیدار ہوگی تو ملک دشمنوں کے چہرے پوری طرح بے نقاب ہوں گے۔ ہندوستان میں ہزاروں علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے مصائب و آلام کا سامنا کیا اور وطن عزیز پر اپنی جان نچھاور کردی۔ اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ علماء سوء کی ایک جماعت کو انگریزوں نے خرید رکھا تھا۔ جو انگریزوں کی مخالفت کرنے سے مسلمانوں کو منع کررہے تھے۔ بس اسی کی تحقیق اگر مسلمان کرلے کہ آخر انگریزوں کے وفادار علماء کون تھے؟ تو جہاںاُسے وطن کے غدّار علماء کا پتہ چلے گا وہیں مزید یہ بھی آشکار ہوگا کہ انگریزوں کے ہاتھوں بکے ہوئے یہ علماء در اصل مسلمانوں کے ایمان و عقیدے پر ڈاکہ ڈال رہے تھے اس مضمون میں دیوبندی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کی انگریز دوستی کا نمونہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آیئے سب سے پہلے سیّد احمد رائے بریلوی کے بارے میں معلوم کریں یاد رہے کہ دیوبندی علماء سیّد صاحب موصوف کو ہندوستان میں پہلی اسلامی تحریک کا بانی اور مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ پیدا کرنے والا پہلا شخص کہتے ہیں اس ضمن میں سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا سیّد صاحب واقعی انگریزوں کے مخالف تھے اور مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کا درس دیتے تھے۔ واضح رہے کہ اس مضمون میں جتنے بھی حوالے دیئے جارہے ہیں سب کے سب دیوبندیوں کی مستند کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ سیّد احمد رائے بریلوی سے متعلق ’’سیرت سیّد احمد‘‘ کے سوانح نگار مولوی ابوالحسن علی ندوی نے بڑی اچھی وضاحت کی ہے۔
’’اتنے میں کیادیکھتے ہیں کہ انگریز گھوڑے پر سوار چند پالکیوں میں کھانا رکھے کشتی کے قریب آیا اور پوچھا کہ پادری صاحب (یعنی سیّد صاحب) کہاں ہیں ۔ حضرت نے کشتی پر سے جواب دیا میں یہاں موجود ہوں انگریز گھوڑے پر سے اترا اور ٹوپی ہاتھ میں لئے کشتی پر پہنچا ۔ مزاج پرسی کے بعد کہاتین روز سے میں نے اپنے ملازم یہاں کھڑے کر رکھے تھے کہ آپ کو اطلاع کریں آج انہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ اغلب یہ ہے کہ حضرت قافلہ کے ساتھ تمہارے مکان کے سامنے پہونچیں یہ اطلاع پاکر غروب آفتاب تک کھانے کی تیاری میں مشغول رہا ۔سیّد صاحب نے حکم دیا کہ کھانا اپنے برتنوں میں منتقل کرلیا جائے ، کھانا لیکر قافلے میں تقسیم کردیا گیا اور انگریز دو تین گھنٹہ ٹھہر کر چلا گیا۔ (سیرت سیّد احمد ۔ص نمبر ۱۹۰)
قارئین کرام ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ سیّد صاحب انگریزوں کی مخالفت کا نقش لوگوں کے دلوں میں بٹھاتے تھے اور دوسری طرف ان کی انگریز دوستی کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے ہم آپ کے ضمیر سے فیصلہ چاہتے ہیں کہ جس شخص کی انگریز دوستی کا عالم یہ ہو کہ انگریز تین تین روز تک کھانا لے کر سیّد صاحب کی آمد کا انتظار کرے اور جب سیّد صاحب کا گزر ہو تو کھانا ان کی بارگاہ میں بصد ادب پیش کردے اور طرفہ تماشہ یہ کہ پورے قافلہ والوں کا کھانا سیّد صاحب کے صدقہ میں آیا اور تقسیم بھی ہوا۔ ایسا شخص بھلا کب انگریزوں کی مخالفت کرے گا اور ان کے مقابل جہاد کرے گا اور جہاد کی ترغیب دے گا۔
اور آگے بڑھئے مرزا حسرت دہلوی کی زبانی دوسری روایت سنئے۔’’حیات طیبّہ‘‘ کے صفحہ نمبر ۴۲۰ پر سیّد احمد کے چار سو بیسی کام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’۱۸۱۵۔ء تک سیّد احمد ، امیر خاں کی ملازمت میں رہے مگر ایک کام نام آوری کا یہ کیا کہ انگریز اور امیر خان میں صلح کرادی۔ سیّد صاحب نے امیرخان کو بڑی مشکل سے شیشے میں اتارا۔ لارڈ ہیسٹٹنگز، سیّد صاحب کی کارگزاری سے بہت خوش ہوا کیونکہ امیر خاں نے ریاستوں اور ان کے ساتھ انگریزوں کا بھی ناک میں دم کردیا تھا۔ سیّد صاحب نے اس حکمت عملی سے بپھرے ہوئے شیر کو پنجرے میں بند کردیا۔ (حیات طیبّہ ، صفحہ نمبر ۴۲۰ )
کہاں ہے دیوبندی مکتب فکر کے علماء ومقررین جو سیّد احمد کی تحریک کاگن گاتے ہوئے، اپنی تقاریرمیں اُنہیں مجاہد آزادی ، انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دینے والا اور وطن کے نام پر بالا کوٹ کے میدان پر جامِ شہادت نوش کرنیوالا کہا کرتے ہیں۔ اگر واقعی سیّد صاحب کو آزادی ٔ وطن کی ذرا بھی فکر ہوتی تو امیر خان کو انگریزوں کی غلامی پر نہ اکساتے بلکہ اُن ظالموں کے خلاف جہاد میں شدّت اختیار کرنے کا مشورہ دیتے کیونکہ امیر خان کے پاس اُس وقت پچیس تیس ہزار لڑنے والے مسلمانوں کا لشکر موجود تھا۔ عوام کو اس طرح کہہ کردھوکہ دیناکہ برطانوی حکومت کے ایجنٹ آج آزادی کے ہیرو کہلارہے ہیں ۔اور خود برطانوی ایجنٹ سیّد احمد رائے بریلوی کو مجاہد آزادی اور شہید کہنا چہ معنی دارد۔؟
اسی طرح شاہ اسمٰعیل دہلوی کا نام بھی وطن عزیزکے نام پر قربان کرنے والوںکے طور پر لیا جاتا ہے ۔ یاد رہے مولوی اسماعیل دہلوی وہ شخص ہے جنھوں نے انگریزوں کی ایماء پر سکھوں سے لڑائی لڑی اور برطانوی حکومت کے بارے میں ان کا موقف بڑا ہی نرم تھا۔ چنانچہ ’’تواریخ عجیبہ ‘‘کے ص ۷۳ پر انگریزوں کے تعلق سے شاہ اسماعیل دہلوی کے موقف کی وضاحت انہی کی زبانی ان کا سوانح نگار یوںکرتا ہے کہ ’’انگریزوں کے عہد میں مسلمانوں کو کوئی اذّیت نہیں چوں کہ ہم انگریزوں کی رعایا ہیں ہمارے مذہب کی روسے ہم پر یہ فرض ہے کہ انگریزوں سے جہاد کرنے میں ہم کبھی شریک نہ ہوں۔‘‘ اسی بات کو ’’حیات طیّبہ ‘‘ کے ص نمبر ۲۹۶ پر مرزا حیرت دہلوی قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’کلکتہ میں جب مولانا اسمٰعیل صاحب نے جہاد کاوعظ شروع کیا اور سکھوں کے مظالم کی داستان شروع کی تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ آپ انگریزوں پرجہادکا فتویٰ کیوںنہیں دیتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک توہم ان کی رعیت (رعایا)ہیں اوردوسرے ہمارے مذہبی ارکان ادا کرنے میں بھی ذرّہ برابر دست اندازی نہیں کرتے ہمیں اُ ن کی حکومتوں میں ہرطرح آزادی ہے۔ بلکہ اگر کوئی ان (انگریزوں) پرحملہ آور ہوتو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اُس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ برطانیہ پر آنچ نہ آنے دیں۔‘‘
ملک بھرمیں ’’یاد محبانِ وطن‘‘ کے نام پر منعقد کئے گئے جلسوںسے خطاب کرتے ہوئے مکتب دیوبند کے مقررین نے اسی مولوی اسمٰعیل کا قصیدہ پڑھ کر انہیںانگریز مخالف بتانے کی بھرپورکوشش کی ہے جبکہ وہ خود کیا کہتے ہیں اُن کی ہی زبانی مذکورہ بالا اقتباسات کو بار بار پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ ہمارا الزام دیوبندیوں پر صحیح ہے یا غلط؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد محبان وطن کے جلسوں میں غدّاران وطن کو وفادار بتایا جانا انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ اور جھوٹ جیسی بری چیز کی تشریح ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیّد احمد رائے بریلوی اور اسمٰعیل دہلوی دونوں کوشہید کہا جاتا ہے۔ حقیقتاً یہ لوگ قتیل نجد اور ذبیح تیغِ خیار ہیں ان کی ’’فرضی شہادت کی روداد علی گڑھ تحریک کے بانی سرسیّد احمد خان کی زبانی سنئے ’’ہندوستان کے گوشہ شمال مغرب کی سرحد پر جوپہاڑی قومیںآباد رہتی ہیں وہ سُنی المذہب حنفی ہیں چونکہ پہاڑی قومیں سیّد صاحب اور مولوی اسمٰعیل کے عقائد کی مخالف تھیں اسلئے وہ وہابی ان پہاڑیوں کو ہرگز اس بات پر راضی نہ کرسکے کہ وہ انکے مسائل بھی اچھا سمجھتے البتہ وہ سکھوں کے جو رو ستم سے نہایت تنگ آچکے تھے۔ اس سبب سے وہابیوں کے اس منصوبے میںشریک بھی ہوگئے کہ سکھوں پر حملہ کیا جائے لیکن یہ قوم مذہبی مخالفت میں نہایت سخت تھیں اس سبب سے اس قوم نے اخیر میں وہابیوں سے دغا کرکے سکھوں سے اتفّاق کیا اور مولوی اسمٰعیل و سیّد احمد صاحب کو قتل کردیا۔‘‘ (مقالات سرسیّد حصّہ نہم ص : ۱۳۹ ؍اور ۱۴۰)
اس عبارت کا مطالعہ کے بعد ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر ایسے کونسے عقائد ومسائل تھے جن کی بناء پر پہاڑی قوموں نے اسمٰعیل دہلوی کی پوری شدو مد سے مخالفت کی حتیٰ کے اخیر میں بالاکوٹ کے میدان میں سیّد صاحب اور مولوی اسمٰعیل دونوں کو قتل کردیا۔ اسلئے ہم یہاں پر ان کے عقائد کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ مگر ان کے عقائد کفریہ کی فہرست بڑی طویل ہے فقط ایک ہی عقیدہ بیان کرکے ہم آگے بڑھتے ہیں۔
مولوی اسمٰعیل دہلوی’’صراط مستقیم‘‘(اردو) ناشر مکتبۂ رحیمیہ دیوبندکے صفحہ نمبر۱۳۶، پرلکھتے ہیں۔ ’’نماز میں زناکے وسوسہ سے اپنی بی بی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے۔ شیخ یا اسی جیسے دوسرے بزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالت مآب ہی ہوںاپنی ہمت کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے برا ہے۔‘‘(معاذ اللہ)
بناء کسی تبصرے کے ہم یہاں پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہی وہ کفری عقیدہ ہے جس کی بناء پر سرحد کی باغیرتِ جوش ایمانی سے پرُ اور محبت ِ سرورکائناتﷺ میں سرشار مسلمانوں نے بالاکوٹ کے میدان میں سیّد احمد رائے بریلوی اور اسماعیل دہلوی کو قتل کردیا تھا۔ یاد رہے کہ انہی دونوں کو دیوبندی علماء جنگ آزادی کے قائد، مجاہد آزادی اور شہید وطن قراردیتے ہیںجب کہ حقائق کی زبانی ان غداری کی کہانی آپ نے ملاحظہ کرلی ہے اب بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش کا ہونا ضداور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں تاریخی حقائق وشواہد کو جھٹلاتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے ان دونوں کے ناموں کے ساتھ شہید کا لکھا جاناسادہ لوح مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔ حقائق بہرحال کسی نہ کسی دن عیاں ہوکر رہیںگے۔
دیوبندی علماکے ممتاز مصنف مولوی عاشق الٰہی میرٹھی بلند شہری اپنی کتاب تذکرۃ الرشید ‘‘ میں برطانوی حکومت کے ساتھ دیوبندی شیخ العالم رشید احمد گنگوہی کے نیاز مندانہ جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں ’’میں جب حقیقت میں سرکار (انگریز) کا فرمانبردار ہوں تو جھوٹے الزامات سے میرا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔ اور اگر مارا بھی گیا تو سرکار مالک ہے ۔اسے اختیار ہے جو چاہے کرے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید صفحہ نمبر۸۰)
کچھ سمجھاآپ نے؟ کس الزام کویہ جھوٹا کہہ رہے ہیں یہی کہ انگریزوں کے خلاف انہوں نے جہادکا علم بلند کیا تھا۔ مولوی رشید احمد گنگوہی کی اس مخلصانہ صفائی کو کوئی مانے نہ مانے کم از کم دیوبندیوں کو توضرور ماننا چاہئے تھامگرغضب خدا کا کہ اتنی شدو مد کے ساتھ انگریزوں سے جہاد نہ کرنے کی مولوی رشیداحمدگنگوہی کی صفائی کے باوجود دیوبندی علماء یہ الزام اپنے اس اکابر پر لگارہے ہیں کہ انہوںنے انگریزوںسے جہادکیا تھا۔دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی کہ کسی فرقے کے افراد نے اپنے پیشوا کی اس طرح تکذیب کی ہو۔
آیئے اب کچھ باتیںدیوبندی حکیم الامت مولو ی اشرف علی تھانوی کے تعلق سے کرتے ہیں۔ آپ کی ذات محتاج تعار ف نہیں’’توہین رسالت‘‘ کے بھیانک ترین جرم کے مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر انگریز نواز تھے خود تھانوی صاحب اپنے بارے میںارشاد فرماتے ہیں۔
’’تحریکات کے زمانے میں میرے متعلق یہ مشہورکردیاگیا کہ ۶۰۰ روپیہ ماہانہ گورنمنٹ سے پاتاہے ۔‘‘ (الافاضات الیومیہ جلد ۴،ص: ۶۹۸)
مذکورہ بالا۶۰۰؍ روپیہ ماہانہ وظیفہ کی تاویل دیوبندی مکتب فکر کے مایا ناز ادیب مولوی شبیر احمدعثمانی اپنے الفاظ میںیوں کرتے ہیں ۔
’’مولانا تھانوی کو اسکاعلم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے۔ مگر حکومت ایسے عنوان سے دیتی تھی کہ ان کواس کا شبہ بھی نہیں گزرتا تھا اب اس طرح اگر حکومت مجھے یا کسی شخص کو استعمال کرے مگر اسے علم نہ ہو کہ اسے استعمال کیا جارہا ہے تو ظاہر ہے وہ شرعاً اس میں ماخوذ نہیں ہوسکتا ۔‘‘یہ بات مولوی عثمانی نے ضرور اسلئے کہی کہ ان پر ناظم جمیعۃ العلماء مولوی حفیظ الرحمن نے انگریزوں کی نمک خواری کا الزام لگایاتھا۔ مولوی حفیظ الرحمن لکھتے ہیں کہ’’ کلکتہ میں جمیعۃ العلمائے اسلام حکومت کی مالی امداد اور ایما ء سے قائم ہوئی ہے‘‘۔
(چند سطروں بعد)۔۔۔
گفتگوکے بعد طئے ہوا کہ گورنمنٹ ان کو کافی امداد اس مقصد کیلئے دے گی۔ چنانچہ ایک پیش قرار رقم اس کے لیے منظور کی گئی اور اس کی ایک قسط مولانا آزاد سبحانی کے حوالہ بھی کردی گئی اس روپیہ سے کلکتہ میں کام شروع کیا۔‘‘ مولانا حفیظ الرحمن نے کہا یہ اسقدر یقینی روایت ہے کہ اگر آپ اطمینان فرمانا چاہیں تو ہم اطمینان کرسکتے ہیں ۔ (مکالمۃ الصدرین ص۸)
مندرجہ بالا عبارت باربار پڑھئے آپ کو محسوس ہوگا کہ کس بیباکی سے علمائے دیوبند ایک دوسرے پر انگریزوں کی نمک خواری اور وظیفہ یابی کا الزام عائد کررہے ہیں۔
بہر کیف برطانوی حکومت کے وفاداروں اور وطن کے غدّاروںسیّد احمد رائے بریلوی ،مولوی اسمٰعیل دہلوی، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی اشرف علی تھانوی اور مولوی شبیر عثمانی وغیرہ ہم جن کو زمانۂ حال کے علمائے دیوبند اور جمیعۃ العلماۂ ہند کے ذمّہ داران باربارآزادی کا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ ان کی انگریز نوازی اور انگریز دوستی کے واقعات کے بعد آیئے اب دار العلوم دیوبند کی خانہ تلاشی کرتے ہیں۔ جس کی جھوٹی انگریز دشمنی اور وطن عزیزکی آزادی کیلئے فرضی قربانیوںکا قصہ دیوبندی علما ء و مقررین پڑھاکرتے ہیں۔
ایک دیوبندی فاضل نے مولانا محمداحسن ناناتوی کے نام سے موصوف کی سوانح حیات لکھی ہے جس کو مکتبۂ عثمانیہ کراچی نے شائع کیا ہے۔ اور جس پر مفتی محمد شفیع دیوبندی (کراچی) کی تصدیق بھی موجود ہے۔ مصنف نے اخبار ’’انجمن پنجاب لاہور‘‘ ۱۹؍فروری ۱۸۷۵ء کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ۳۱؍جنوری ۱۸۷۵ء یکشنبہ لیفٹننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمّیٰ پامرPamer نے دار العلوم دیوبند کا معائنہ کیا۔ معائنہ کی جو عبارت موصوف نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے۔ اس کی چند سطریں خاص طور پر پڑھنے کے قابل ہیں۔ ’’جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیوں کے صرفہ سے ہوتا ہے۔ وہ یہاں کوڑیوںمیں ہورہا ہے۔جو کام پرنسپل ہزاروں روپئے ماہانہ تنخواہ لیکر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پرکررہاہے۔ یہ مدرسہ خلاف سرکار انگلشیہ نہیں بلکہ موافق سرکار ممدو معاون سرکا ر ہے۔‘‘
؎ مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
خود انگریز کی یہ شہادت کے یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیںبلکہ موافق سرکارکا معاون ہے توپھراسی ’’فرضی افسانے‘‘کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے جس کا’’ ڈھنڈورا‘‘ ہر سال ’’ یاد محبان وطن‘‘ کے نام پر اجلاس کا انعقاد کرکے پیٹا جاتا ہے۔ کہ دار العلوم دیوبند اور اکابرعلمائے دیوبند نے انگریزی حکومت کے خاتمے کیلئے زبردست حصّہ لیا ہے۔اور ملک کو آزاد کرانے کیلئے قربانیاں دیں۔ حقائق تو انہیں برطانوی حکومت کا ایجنٹ ووفادار اور ملک کا غدّارو دشمن ثابت کرتے ہیں۔
دارا لعلوم دیوبند کے کارکنوں کا انگریزوںکے ساتھ کس درجہ خیر خواہانہ ، نیاز مندانہ اورمخلصانہ تعلق تھا۔ اس کا اندازہ لگانے کیلئے خود قاری طیّب صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند کا یہ تہلکہ خیز بیان پڑھئے اور سر دھنئے۔’’ مدرسہ دیوبند کے کارکنوں کی اکثریت ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پینشنرز یافتہ تھے۔ جن کے بارہ میں گورنمنٹ کو کچھ شک و شبہ کرنے کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد :۲ ص۲۴۷)
اتنے حقائق کے بعد مسلمانوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ دار العلوم دیوبند انگریزوں کی شہ پر قائم کیاگیا ادارہ ہے جس کا مقصدمسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور ان کے دلوں سے عشق رسولﷺ کو نکال کر انگریزوں کی محبت بھرنا تھا۔ اوراسلام کو کمزور اور کھوکھلا کرنا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت بھی انگریزوں کی مدد سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کیلئے بنائی گئی ہے اور انگریزوں کی مہربانیاںاور نوازشات علمائے دیوبند و دار العلوم دیوبند کی طرح تبلیغی جماعت پربھی تھی۔ اوریہ جماعت بھی وظیفہ خوری میں کسی سے پیچھے نہ رہی ۔ دیوبندی مکتب فکرکا ایک ذمے دار شخص اس حقیقت کا اقرار کرتا ہے کہ
’’مولانا حفیظ الرحمن نے کہا الیاس صاحب کی تبلیغی تحریک کو ابتداً حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید کچھ روپیہ ملتا تھا۔ پھر بندہوگیا۔(مکالمۃ الصدرین)
روپیہ بندہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ تبلیغی جماعت تائب ہوکر انگریز دشمن بن گئی تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ جس مسلمان افسر نے تبلیغی جماعت کو خرید کر برطانوی حکومت کا آلۂ کار بنایاتھا اس کا تبادلہ ہوگیاتھا۔ اور اس کی جگہ ایک متعصب ہندو افسر آیاتھا۔ جو غالباً اپنی مسلم دشمن ذہنیت کے سبب انگریزوں کے مسلم وفاداروں کی جگہ کافر وفاداروں کا فائدہ چاہتا تھا۔ اسی ہندو افسر کی سفارش پرتبلیغی جماعت کی امداد بند ہوگئی۔
ان تاریخی حقائق و شواہد کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دار العلوم دیوبند اور اکابرین علمائے دیوبند تمام کے تمام برطانوی حکومت کے ایجنٹ اور وفادار رہے ہیں۔ملک کی آزادی کیلئے کوششیں اور قربانیاں تو درکنار انگریزوں سے روپیہ پیسہ وظیفے کے طور پر حاصل کرکے انگریزوں کے کیخلاف جہادکرنے والوں کو ان لوگوںنے منع کیا اور وطن سے غدّاری کی۔ ان تاریخی حقائق و شواہد کی زبانی غداران وطن کی کہانی مکمل طور پر سمجھ میںآگئی ہوگی۔ خخخ
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.