You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ہوٹلوں پر وقت گزاری ، لعن طعن، گھریلومعاملات کو اچھالنا، غیبت
فحش گوئی اور آپس میں اُلجھنا قوم مسلم کامحبوب مشغلہ ایک لمحۂ فکریہ
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
فضول بات یعنی ایسی بات جس کے کہنے کی ضرورت نہ ہوا ور اس کے کہنے سے کسی قسم کا نقصان یا مضرتِ دینی یا دنیوی نہ ہو۔یہ زبان کی پہلی آفت ہے۔فضول اور بے ضرورت بات کہی تو حسن اسلام سے نکل جانے کاخدشہ ہے کیوں کہ پیغمبر اسلام مصطفی کریم ﷺ نے فرمایا:آدمی کے اسلام کی خوبی اس میں ہے کہ لا یعنی بات ترک کر دے۔لایعنی کلام کی مثال یہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کراپنے سفر کے احوال،باغ و بوستاں کی کیفیت اور جو کچھ رودادِ سفرہو اس کو بے کم وکاست بیان کرنا،یہ سب یاوہ گوئی اور زیادہ گوئی ہے۔اس کی چنداں حاجت نہیں اور نہ کہنے سے ضرر کا کچھ اندیشہ بھی نہیں۔مگر آج بالخصوص دوستوں کے ساتھ ایسی محفلیںمنعقد کی جاتی ہیںجس میں رودادِسفر اور احوالِ شب وروز لطف اندوزی کے لیے بیان کئے جاتے ہیں۔فلم بینی کے بعد فلم کی مکمل اسٹوری یارانِ مجلس میں قہقہوں کے ساتھ تفریح طبع اور مزہ کے لیے بیان کرکے دوہرے گناہ میں ملوث ہوتے ہیں۔اس لئے کہ گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے۔اسی لیے اگر کسی سے ملاقات ہو اور اس سے ایسی بات پوچھو جس کی حاجت نہیںمثلاً:کسی سے پوچھنا کے تم نے روزہ رکھا ہے،اب اگر وہ جواب میں سچ کہتا ہے تو اس نے عبادت کا اظہار کیااور جھوٹ کہتا ہے توگناہگار ہوگا،اس کے جھوٹ بولنے کے مؤجب ہم ہوں گے کیوں کہ اس نے ہمارے بے جا سوال پر جھوٹ کہا ہے۔ اسی طرح کسی شخص سے پوچھا جائے کہاں سے آرہے ہویا کیا کررہے ہو؟تو ممکن ہے کہ وہ اس بات کو چھپاناچاہتا ہو اور وہ جھوٹ کہہ دے۔یہ سب کلام بے جا اور یاوہ گوئی ہے۔معقول بات وہ ہے جس میں باطل اورجھوٹ کا دخل نہ ہو۔منقول ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اہل بہشت سے یہاں آئے گا۔پس حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ دروازے سے داخل ہوئے۔لوگوں نے انھیں اس عظیم خوش خبری سے باخبر کیا اور دریافت کیا کہ کس عمل کے باعث اس بشارت عظمیٰ سے سرفراز کیے گئے۔فرمایا کہ میراعمل تو بہت تھوڑا ہے لیکن میں نے کبھی بھی اس کے بارے میںلوگوں سے دریافت نہیں کیا جس کام سے میرا کوئی تعلق نہیںاور نہ میں نے لوگوں کی بد خواہی کی۔
زبان کی دوسری آفت وہ سخن ہے جو محض باطل اورمعصیت میں کیاجائے۔باطل سے مراد وہ کلام جوبدعات میں کیاجائے اورمعصیت(گناہ)یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے گناہ ، فسق و فجورکی باتیں،شراب نوشی کی مجلسوں اورفسق وفجور کی حکایات بیان کی جائیں۔ایک دوسرے سے فحش باتیں کرنایا اس طرح فحش باتیں بنائیںجس کو سن کر دوسروں کو ہنسی آجائے۔یہ تمام باتیںمعصیت میں داخل ہیں۔یہ پہلی آفت سے زیادہ سخت ہے کیوں کہ پہلی آفت میںصرف مرتبے اور درجات کا نقصان تھا مگر اس میں توگناہ ہے۔رسول گرامی وقارﷺ نے فرمایا:کوئی ایسا ہوگا کہ ایک بات ایسی کہے جس کا اس کو خوف نہ ہو اور اس کو حقیر نہ جانے آخر کاریہی بات اس کو قعرِ جہنم تک پہنچائے گی اورکوئی ایسا ہوگا کہ بے تکلف ایک بات کہے اور وہ بات اس کو بہشت میں لے جائے۔
بحث کرنا،جھگڑنا زبان کی تیسری آفت ہے۔آقائے کون ومکاں ﷺ نے فرمایا:ہر ایک جھگڑے کاکفارہ دورکعت نماز ہے۔جھگڑا کرنے میں یہ بھی ہے کہ کسی کے کلام پر حرف گیری نہ کی جائے۔ کسی کے کلام کے نقص کو ظاہر کرناحرام ہے کیوں کہ اس سے قلبی رنج ہوتا ہے اورکسی مسلمان کو بغیر ضرورت رنج دینا مناسب نہیں ہے۔اور لوگوں کے کلام کی خطا اور غلطی ظاہر کرنافرض نہیں ہے بلکہ خاموش رہناایمان کی دلیل ہے۔البتہ بطور نصیحت تنہائی میں حق بات کو ظاہر کردو بشر طیکہ قبولیت کی امید ہو اگر نہ ہوتو خاموش رہنا مناسب ہے۔جھگڑوں سے بچنے والوں کومژدۂ جانفزا سناتے ہوئے مصطفی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی بات چیت میں مخالفت اور جھگڑاکرنے سے باز رہے گااور بے جا گفتگو نہ کرے گااس کے لیے جنت کا محل ہے۔
قارئین کرام!مذکورہ باتوں کوجاننے کے بعدہم اپنے گردوپیش کاجائزہ لیں گے تو ہمیں اس بات کابخوبی اندازہ ہوگاکہ جن باتوں سے ہمیں روکاگیاہے ان تمام باتوں میں مسلم سماج ملوث نظر آتا ہے۔ہوٹلوں پر بیٹھ کر وقت گذاری کرنا،ایک دوسرے پر لعن طعن کرنا،لوگوں کے گھریلومعاملات کو چار لوگوں کے درمیان اچھالنا،ایک دوسرے کی غیبت کرنا، بڑی فرصت سے فلمی داستان کوآپس میں شیئر کرنا ، فحش گوئی کرنا،نازیباکلمات کہنااور بات بات میں آپس میں الجھ جاناوغیرہ وغیرہ باتیں آج کامحبوب مشغلہ نظرآتاہے۔نہ بچوں کی تعلیم کی فکرہے اور نہ ہی ان کی نگہداشت پر توجہ،نہ والدین کی خدمت کاخیال ہے اورنہ ہی نجی زندگی کو بہتر بنانے کی تمنا۔ہوناتو یہ چاہئے کہ حلال رزق کی جستجوسے جب فارغ ہوجائے تو اپناوقت علم دین کے حصول میں صرف کریں،بچوں نے مدرسہ واسکول میں کیاپڑھااس کا اعادہ کروائیں، والدین کی خدمت انجام دیں مگر افسوس صد افسوس!ان تمام باتوں سے پرے ہوٹلوں،کلبوں،چوک اور چوراہوں پر بیٹھ کر ساراوقت فضول باتیں کرنے اورگپیں ہانکنے میں خرچ ہوتاہے۔اگر ہم بہتر معاشرے کے خواہش مند ہے ،بچوں کو اسلامی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار دیکھنا چاہتے ہیں اور خدمت والدین کے صلے میںجنت کے متمنی ہے تو مذکورہ باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،سچامسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کی عزت کاخیال اس کے پیٹھ پیچھے کریں نہ کہ یہاں وہاں بیٹھ کر عزتِ مومن کے قلعے کومسمار کریں۔ اللہ پاک سے دعاہے کہ مولیٰ تعالیٰ ہمیں تمام لایعنی باتوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ،ایم ایچ سیٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.