You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
دبیر اہل سنت مولانا فقیر محمد جہلمی رحمۃ اللہ علیہ
( مالک سراج الاخبار،جہلم)
محمد ثاقب رضا قادری (پاکستان)
مولانا فقیر محمد جہلمی علیہ الرحمۃ اہل سنت کے ممتاز عالم دین، صاحب طرز ادیب، مصنف، مترجم اور مؤرخ تھے۔ آپ کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو اردوصحافت ہے -جس کی ترویج و ترقی کے لیے آپ تاحیات کمر بستہ رہے۔آپ نے اردو صحافت کے ذریعے نہ صرف ملک و ملت کی بھر پور خدمت کی بلکہ مذہب و مسلک کی ترویج و اشاعت اور احقاق حق و ابطال باطل کا فریضہ بھی خوب نبھایا۔ پیش نظر مضمون میں آپ کی شخصیت کے چند اہم پہلوؤوں کو متعارف کروانا مقصود ہے لیکن اس سے قبل مولانا کے شخصی کوائف کااجمالی ذکر کرنا ضروری ہے چنانچہ مولانا اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں :
’’راقم یعنی فقیر محمد بن حافظ محمد سفارش بقرینۂ غالب ۱۲۶۰ھ /۱۸۴۴ء میں موضع چتن میں جو شہر جہلم سے دو میل کے فاصلہ پر بجانب غرب واقع ہے، پنج شنبہ کے روز رات کے وقت پیدا ہوا، جب چھ سات سال کا ہوا تو پڑھنے پر بٹھایا گیا اور قرآن شریف کے ختم کے بعد کتب فارسیہ میں مشغول ہوا اور موضع ٹالیانوالہ میں جو چتن سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے-میاں قطب الدین مرحوم سے پڑھنے جاتا لیکن اکثر روز راستہ میں ہی موضع جادہ میں اپنے ماموں حافظ فتح علی مرحوم کے پاس رہ جاتا اور اپنے ماموں زاد میاں غلام محمد مرحوم سے بھی جو ایک ذہین و مستعد صاحب علم تھے، استفادہ کرتا۔ اسی اثنا میں فقیہ اجل عالم بے بدل مولوی نور احمد صاحب تلمیذ فقیہ فاضل محدث کامل مولوی رحمت اللہ صاحب کیرانوی مصنف ازالۃ الاوہام و اعجاز عیسوی و اظہار الحق وغیرہ حال نزیل و مدرس مکہ معظمہ جب لاہور سے مراجعت فرما کر اپنے وطن مالوفہ موضع کھائی کوٹلی میں جو جہلم سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے، سکونت پذیر ہوئے تو یہ احقر بھی ان کے درس میں جو اس وقت علاقہ جہلم میں کیا بلکہ کل پنجاب میں ایک بے نظیر گنا جاتا تھا-حاضر ہوا اور کئی سال ان کی خدمت میں صرف، نحو، فقہ و دیگر علوم کی ابتدائی کتابوں کو سبقاً سبقاً پڑھا۔ بعد ازاں راول پنڈی چلا گیا جہاں پہلے مولوی عبدالکریم صاحب حال مفتی شاہ پور سے جو کچھ دنوں کے لیے وہاں وارد تھے، منطق شروع کی اور ان کے وہاں سے چلے جانے پر مولوی محمد حسن صاحب فیروزوالہ سے جو وہاں بہ تلاش روزگار تشریف لائے ہوئے تھے -پڑھنا شروع کیا، انہی دنوں ۱۲۷۶ھ میں دہلی کا ارادہ کیا اور ایک فوج کے ساتھ جو کانپور کو جاتی تھی-دہلی میں پہنچا۔ پہلے پہل پنجابی کٹرہ میں مولوی نذیرحسین صاحب کے درس میں حاضر ہوا مگر انہوں نے یہ عذر کر کے کہ ہم معقولات نہیں پڑھا سکتے، مولوی محمد شاہ صاحب مصنف مدارالحق کے سپرد کر دیا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد بستی نظام الدین اولیاء میں جناب صدرالافاضل اعزالمماثل مولانا مفتی محمد صدرالدین خاں صاحب صدرالصدور دہلی تلمیذ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث کی خدمت میں چلا گیا جن کے درس میں تقریباً ڈیڑھ سال رہ کر قراء ۃً و سماعاً کتب درسیہ متداولہ کا عبور کیا اور اواخر ۱۲۷۷ھ میں وہاں سے مراجعت کر کے اپنے وطن مالوفہ میں آیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد لاہور میں چلا گیا جہاں فاضل جلیل القدر فقیہ فرید الدہر مولوی کرم الٰہی صاحب( متوفی ۱۲۸۲ھ) سے بھی بہت کچھ استفادہ کیا اور ساتھ ہی اس کے خوش خطی حاصل کرنے کی رغبت پیدا ہو گئی اور’ من جد فوجد‘ کا مصداق ہو کر مطبع آفتاب پنجاب لاہور میں کتابت کی خدمت پر مقرر ہو گیا، انہی دنوں میں ۱۲۸۴ھ میں عالم بے نظیر مناظر حسن التقریر مولوی حافظ ولی اللہ لاہوری کی پادری عماد الدین سے امرتسر میں تحریری بحث ہوئی جس سے مجھ کو بھی تردید عقائد نصاری کا شوق پیدا ہوا اور حافظ صاحب مرحوم سے بھی کچھ استفادہ کر کے اس فن میں مہارت پیدا کی… (حدائق الحنفیہ:۲۲)
جناب خورشید احمد خاں نے خوش نویسی میں آپ کے اساتذہ میں مرزا امام ویردی، صوفی غلام محی الدین وکیل اور میر احمد حسن کاتب دہلوی کا ذکر کیا ہے۔(ایضاً)
اس کے علاوہ آپ ایک رسالہ ’’انوارالشمس‘‘ کی ادارت بھی کرتے رہے۔رد نصاریٰ میں چند مضامین تحریر کیے جو کہ اخبار کوہ نور(لاہور)اور اخبار منشور محمدی(مدراس) میں شائع ہوئے۔
مولوی محمد الدین فوق ایڈیٹر کشمیری میگزین، لاہور لکھتے ہیں:
’’مولوی فقیر محمدصاحب اپنے تمام معاصرین میں سب سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔‘‘ (اخبار نویسوں کے حالات:۶۱)
مارچ ۱۸۷۵ء کو ’’آفتاب پنجاب‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور نو(۹) سال تک اخبار کی ادارت کے فرائض انجام دیے ۔
۲۸ اگست ۱۸۸۶ء کو مولانا فقیر محمد جہلمی صاحب کے بیٹے محمد سراج الدین کا چھ(۶) سال کی عمر میں بعارضۂ تپ محرقہ انتقال ہو گیا جس سے آپ کو نہایت گہرا صدمہ پہنچا۔ چنانچہ مولانا سراج الاخبار میں اس صدمۂ جان کاہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ہم اس سال کے آدھے حصہ سے برابر اپنے لخت جگر محمد سراج الدین مرحوم کے جاں گداز جگر سوز حادثہ وفات سے ایسے درد و الم میں مبتلا ہیں کہ جس کا اندازہ اس عالم الغیب یا ہمارے دل درد مند کے بغیر کوئی نہیں جانتا؛
ٹکڑے ہوتا ہے جگر جی ہی پر بن جاتی ہے
موت جب اس گل رعنا کی جو یاد آتی ہے
اور باوجود یکہ اس غنچہ دہن اور بلبل ہزار داستان کی دائمی فرقت کو پورے چار ماہ گزر گئے ہیں مگر غم و الم کا یہ عالم ہے کہ ہنوز روز اول معلوم ہوتا ہے۔‘‘(سراج الاخبار۳ جنوری ۱۸۸۷ء صفحہ۶)
سراج الدین کی موت کے دو سال بعد مولانا کو ایک اور بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا چنانچہ سراج الاخبار مورخہ ۲ جنوری ۱۸۸۸ء میں ہے:
’’مولانا فقیر محمد جہلمی صاحب کا ایک بیٹا ۲۷ اپریل ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوا، محمد شفیع نام رکھا گیا جو کہ اسی سال ۱۲ نومبر کو فوت ہو گیا۔‘‘
مولانا فقیر محمدجہلمی کا وصال ۲۵ اکتوبر۱۹۱۶ء بمطابق۲۷ ذی الحج ۱۳۳۴ھ بہ سبب مرض اسہال بحالت نماز ہوا۔اور جہلم شہر کے قبرستان میں اپنے بیٹے سراج الدین کے پہلو میں دفن ہوئے۔مولانا کی صاحب زادی محترمہ غلام مریم صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ وفات سے پہلے مولوی صاحب کو بار بار اجابت ہو رہی تھی مگر وہ ہر بار اجابت کے بعد وضو کرتے، آخر وقت تک کوئی نماز قضا نہیں کی اور فرماتے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بے وضو جانا پسند نہیں کرتا۔(حدائق الحنفیہ:۲۳)
ہفت روزہ سراج الاخبار، جہلم
سراج الاخبار ۵ جنوری ۱۸۸۵ء /۱۸ ربیع الاول ۱۳۰۲ھ کو پنجاب کے شہر جہلم سے مولانا فقیر محمد جہلمی مؤلف حدائق الحنفیہ نے اپنے ذاتی مطبع سراج المطابع (جہلم) سے جاری کیا، اخبار کی اشاعت ہر دوشنبہ کوہوتی تھی۔اخبار کا سائز ۸/۲۶×۲۰ اور صفحات آٹھ تھے۔ سالانہ چندہ حکومت سے ۲۰ روپے، والیان ریاست سے بارہ روپے اور عام قارئین سے تین روپے تیرہ آنے تھا۔ابتدا میں ادارت کی ذمہ داریاں بھی مولانا خود ہی انجام دیتے تھے بعد ازاں اپنے دوست مولانا کرم الدین دبیر کو یہ ذمہ داری دے دی۔
۱۹۰۶ء سے اخباردس(۱۰) صفحوں پر چھپنے لگا اور ۱۹۰۹ء سے صفحات کی تعداد بارہ(۱۲) ہو گئی، جس میں سے چھ (۶)صفحات پر صرف خبریں ہوتی تھیں۔ ۱۹۱۶ء میں ایک نامہ نگار کی غلطی پر حکومت پنجاب نے پریس ایکٹ کے تحت تین ہزار روپیہ ضمانت داخل کرنے کا نوٹس بھیجا۔ ضمانت داخل نہ ہونے کی وجہ سے اخبار تقریباً چار ماہ بند رہا۔ حکام کی سفارش سے زر ضمانت میں تخفیف ہوئی اور اخبار ۵ جون ۱۹۱۶ء کو دوبارہ جاری ہوا۔ جس کے بعد حکومت کے ضمن میں اخبار کا رویہ خوشامدانہ ہو گیا۔
مولانا فقیر محمد جہلمی کی وفات کے بعد اخبار کچھ عرصہ تک بند رہا، یکم جنوری ۱۹۱۷ء سے اہلیہ فقیر محمد نے اسے تیسری بار جاری کیا اور ادارت کی ذمہ داریاں منشی محمد حسین الدین سیالکوٹی کے سپرد ہوئیں۔(مجلہ تحقیق، لاہور جلد ۲، شمارہ۱)
اخبار کے اغراض و مقاصد:
۱۔ رعایا کے دُکھ درد کا عرض حال گورنمنٹ کے روبرو مدلل وجوہات سے پیش کرنا اور گورنمنٹ کو صلاح دینا۔
۲۔ ترقی ملک اور رفاہ قوم کے طریقے اپنے ناظرین اور ملک اور قوم کو بتلانا۔
۳۔ اہل حقوق کو اپنے حق پہچاننے کی طرف مائل کرنا اور طرز تمدن اور معاشرت بھی قوم کو بتلانا۔
۴۔ مسئلہ اتفاق اور ہمدردی کے فوائد قوم کے روبرو پیش کرنا۔
۵۔ علاوہ اپنے ملک ہند کے، ممالک غیر خصوصاً یورپ کے گوناگوں حالات اور وہاں کی تربیت یافتہ اقوام کے کوائف اور تازہ بتازہ خبریں، واقعات نادرہ وقتاً فوقتاً انگریزی، عربی اور فارسی وغیرہ اخباروں اور انتخاب گورنمنٹ گزٹ پنجاب ، تازہ گزٹ انگریزی سے ترجمہ ہو کر درج ہوا کرے گا۔
اخبار کا دستور العمل:
سرورق پر اخبار کا دستور العمل یوں تحریر ہوتا تھا:
۱۔ یہ اخبارہفتہ وار دوشنبہ کے روز شائع ہوتا ہے جس کی سالانہ قیمت بمد پیشگی گورنمنٹ سے حسب عطیہ والیان ریاست سے۱۲ عام شائقین سے تین روپے تیرہ آنے ہے اور مابعد دو چند ہے۔ میعاد پیشگی تاریخ خرید سے ۳ ماہ تک ہے۔
۲۔ اُجرت مضامین مفید خاص و اشتہارات ایک بار کے لیے فی سطر ۲/- ایک بار سے زیادہ کے لیے ۱/-فی کالم ہے۔ فی صفحہ ۱۳/- ہے۔
۳۔ قیمت اخبار وغیرہ بذریعہ منی آرڈر یا دستی بھیجنی چاہیے۔
۴۔ جب کسی صاحب کی خدمت میں یہ اخبار بلادرخواست پہنچے تو بصورت نا منظوری کارڈ کے ذریعہ سے مطبع کو اطلاع دیں، اخبار واپس نہ کریں کیونکہ اخبار عرصہ کے بعد مطبع میں واپس آتا ہے اور اس عرصہ تک برابر روانہ ہوتا رہتا ہے۔ دو پرچہ اخبار تک کارڈ نا منظوری کے نہ پہنچنے پر ان کا نام نامی درج رجسٹر خریدران کیا جائے گا۔
۵۔ جو صاحب اخبار کا لینا بند کرانا چاہیں وہ ممانعت کے ساتھ ہی اخبار کی قیمت جو اس وقت تک ان کے ذمہ ہو ، عنایت کریں ورنہ اخبار بند نہ کیا جائے گا اور قیمت ان کے ذمہ چڑھتی رہے گی۔
۶۔ جو خطوط تقاضا قیمت میعاد پیشگی کے گزرنے پر مطبع سے روانہ ہوں گے ان کا خرچ صاحب حساب کے نام درج کیا جائے گا۔
۷۔ جو صاحب کسی بات کا جواب مطبع سے منگانا چاہیں تو اپنی ایسی تحریر جوابی پوسٹ کارڈ پر بھیجیں۔
۸۔ کوئی بے رنگ خط نہیں لیا جائے گا۔
سراج الاخبار اپنے مشمولات کی رو سے ایک مکمل اخبار تھا اور اپنے عہد کی ضروریات کے عین مطابق تھا جس کا کریڈٹ بلا ریب مالک اخبار مولانا فقیر محمد جہلمی صاحب کو جاتا ہے جو کہ اپنے ہم عصروں سے صحافتی میدان میں وسیع تجربہ کا حامل ہونے کی بنا پر فوقیت رکھتے تھے۔
ترتیب اخبار میں اکثر غیر ملکی خبروں کو ابتدائی صفحات میں نقل کیا جاتا، علاوہ اس کے ملکی صورت حال، واقعات، مقامی خبریں، برقی تار و مراسلات، گورنمنٹ پالیسیز پر ریویوز، قارئین کے خطوط، انتخاب پنجاب گزٹ وغیرہ سب شامل ہوتا۔ بعض اوقات ادبی لطائف و نظمیں بھی شائع ہوتیں۔
مذہبی خبروں میں مختلف اداروں و تنظیموں کے جلسوں کے اشتہارات، جلسوں کی روداد، تنقیدی و فکری مقالات ۔ دینی کتب پر تبصرہ، علماء کرام و اہم شخصیات کے وصال پر تاریخی قطعات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
سراج الاخبار کا آغاز ایسے وقت میں ہوا جو کہ برصغیر میں مذہبی لحاظ سے افتراق و انتشار کا دور تھا۔ وہابیت، غیر مقلدیت، نیچریت ،دیوبندیت اور قادیانیت / احمدیت /مرزائیت نے قریب قریب اسی عرصہ میں جنم لیا۔ علاوہ اس کے عیسائی مشنریز اور آریہ کی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر تھیں چنانچہ اخبار نے دین اسلام کے تحفظ و بقا کی خاطر اپنی مقدور بھر سعی کی اور اپنے عہد کے ہر فتنہ کا بھر پور تعاقب کیا۔قادیانیت کے تعاقب میں اس اخبار کی خدمات کو سراہتے ہوئے شرف اہل سنت مولانا عبدالحکیم شرف قادری صاحب لکھتے ہیں:
’’۱۳ ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ سے[مولانا فقیر محمد جہلمی نے]جہلم میں اپنے لخت جگر محمد سراج الدین کے نام پر مطبع سراج المطابع قائم کیا اور اخبار سراج الاخبار جاری کیا، اس اخبار نے اپنے دور کے اعتقادی فتنوں خاص طور پر فتنۂ مرزائیت کی تردید کے لیے بڑا کام کیا۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:۳۹۱ )
الحمدللہ راقم نے سراج الاخبار کی تقریبا سولہ (۱۶)سال کی فائلیں تلاش کر کے قادیانیت کے متعلقہ خبروں، رپورٹوں اور مقالات کو ’’رد قادیانیت اور سُنّی صحافت‘‘ کے عنوان سے ایک جلد میں جمع کردیا ہے ۔(یہ کتاب مشتملہ ۷۳۶ صفحات عن قریب مکتبۂ اعلیٰ حضرت (پاکستان) سے شائع ہو رہی ہے۔)
جناب افضل حق قرشی لکھتے ہیں:
’’یہ اخبار جب سے جاری ہوا ، کبھی ناغہ نہیں ہوا، نہ کبھی سالانہ تعطیل ۔۱۹۱۶ء میں پہلا واقعہ پیش آیا کہ ایک نامہ نگار کی غلطی پر ۷ فروری ۱۹۱۶ء کو حکومت پنجاب کی طرف سے زیر دفعہ ۳ شق ۲ پریس ایکٹ، ایڈیٹر کو تین ہزار روپیہ ضمانت داخل کرانے کا نوٹس پہنچا۔ ضمانت داخل نہ ہونے کی وجہ سے اخبار تقریباً چار ماہ بند رہا۔ حکام کی سفارش سے زر ضمانت میں تخفیف ہوئی اور اخبار ۵ جون ۱۹۱۶ء کو دوبارہ جاری ہوا۔ ۱۹۱۶ء میں بھی ایڈیٹر کے انتقال کی وجہ سے اخبار کچھ عرصہ پھر بند رہا۔ یکم جنوری ۱۹۱۷ء سے اہلیہ مولوی فقیر محمد نے اسے سہ بارہ جاری کیا۔ اس بار ایڈیٹر منشی محمد حسن الدین سیالکوٹی تھے۔‘‘
سراج الاخبار کے قارئین کا اخبار سے کس حدتک لگاؤ تھا اس کی ایک جھلک ذیل کی ان خبروں میں دیکھی جا سکتی ہے:
شیدایان سراج الاخبار
ہے بجا ناز کہے گر یہ سراج الاخبار
اس کے شیدا ہوئے دنیا میں سکندر آثار
ناظرین کرام بخوبی واقف ہیں کہ اولاد سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نعمت نہیں، اولاد خدا کے بہترین انعامات سے ہے، اس سے آنکھوں میں ٹھنڈک آتی ہے، دل کو مسرت حاصل ہوتی ہے، نسیم سحری سے کہیں بڑھ کر دل کشا اور جاں فزا یہ صبائے چمن غیبی ہے۔ اس سے دنیا میں پائندگی اور تابندگی ہاتھ آتی ہے۔ گل پژمردہ آب وتاب سے رونق افروز چمن ہوتا ہے۔ پدر کی جان میں جان آتی ہے۔ اس تقریب مسعود پر ہر مسلمان اپنے بھائی کو مستحق مبارک تصور کرتا ہے۔ یہی اسلام کی اخوت کا تقاضا ہے لیکن جب خدا ایسا موقع کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کو عطا کرتا ہے تو پُھولے نہیں سماتے ، آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ہمیں از حد فرحت اور بہجت ہوئی جب یہ جاں بخش مژدہ آیا کہ ہمارے مکرم مہربان دوست سردار سکندر خان صاحب خٹک رئیس آف ملاحی ٹولہ کو خدائے ذوالمنن نے نور العین بخشا۔ ہم اپنا فرض عین سمجھتے ہیں کہ سردار صاحب کو دلی مبارک باد دیں خصوصاً جبکہ آں جناب نے اس محبت اور تعلق سے جو انہیں اس اخبار سے ہے اپنے قرۃ العین کا اسم گرامی ’’سراج الحسن‘‘ قرار دیا۔
ایم حسن الدین ایڈیٹر اخبار
(سراج الاخبارمورخہ ۱۹ فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۱)
سراج الاخبار کی عزت افزائی
خدا کے فضل سے سراج الاخبار کی اشاعت دن بدن بڑھ رہی ہے اور اس کو خاص مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اس کے دل چسپ اور وفادارانہ آرٹیکل اور دنیا بھرکی صحیح اور تازہ ترین خبروں اور ہر قسم کی معلومات بڑھانے والے علمی اور اخلاقی مضامین کو اہل ملک پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی مانگ اطراف عالم سے ہو رہی ہے۔ اللّٰھم زد فزد
یہ خبرہواخواہان اخبار کی بے حد مسرت کا باعث ہو گی کہ بعض سرکاری فوجی افسران نے سراج الاخبار کو میدان جنگ میں پنجابی سپاہیوں کی تفریح طبع اور مشغلہ کے لیے پہنچانا مناسب سمجھا ہے ۔(سراج الاخبار مورخہ ۵ مارچ ۱۹۱۷ء ص۲)
اخبار نے اپنی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد طلباء کے لیے ایک ماہ وار رسالہ کے اجراء کی تجویز پیش کی جس کا نام ’’سراج العلوم‘‘ رکھا گیا تاہم حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ رسالہ جاری ہو سکا یا نہیںالبتہ اخبار کی متعدد اشاعتوں میں ایک اشتہار بدیں الفاظ شائع ہوتا رہا؛
اشتہار رسالہ سراج العلوم
چونکہ سراج الاخبار اکثر مدارس میں جاتا اور اہل علم و طلباء کی نظر سے گزرتا ہے اس لیے اکثر اصحاب کی رائے ہے کہ اگر اخبار کے ساتھ کوئی ایسا رسالہ علمی بھی جاری کیا جائے جو طلباء مدارس اور امتحان دہندگان مڈل و انٹرنس کو پورا پورا فائدہ دے سکے تو نہایت ہی مناسب ہے کیونکہ اس وقت گو دو ایک رسالے اس قسم کے پنجاب میں شائع ہوتے ہیں مگر جیسا کہ چاہیے ان سے طلبا کو مدد نہیں مل سکتی کیونکہ امتحانات متذکرہ بالا میں حساب، مساحت، اقلیدس، جبر و مقابلہ، تواریخ، جغرافیہ، حفظ صحت، اردو زبان دانی، جواب مضمون اردو، قواعد اردو، ترجمہ اردو سے فارسی، ترجمہ فارسی سے اردو، قواعد فارسی، ترجمہ اردو سے عربی،ترجمہ عربی سے اردو، صرف و نحو عربی، طبعی، جغرافیہ طبعی وغیرہ وغیرہ مضامین داخل ہیں اور موجودہ رسالوں میں متذکرہ بالا مضامین کے التزاماً سوالات و جوابات اور ان کی بحث وغیرہ نہیں ہوتی۔ چونکہ مہتمم سراج الاخبار کو اپنے احباب کی فرمائشوں سے کسی طرح اغماض منظور نہیں ہے لہذا گذارش کیا جاتا ہے کہ اگر دو سو تک درخواستیں خریداروں کی آ جائیں تو ہم جنوری ۱۸۸۸ء سے ایک ماہ وار رسالہ سراج العلوم جہلم سے ۲۴ صفحہ کا نکالا کریں گے جس سے امیدواران امتحان مڈل و انٹرنس کو پوری امداد مل سکے گی اور ان امتحانات کے لیے جتنے مضامین ضروری ہیں ان کو سلسلہ وار ایسی خوبی و خوش اُسلوبی اور طریقہ سے علیحدہ علیحدہ حصص میں شائع کیا جائے گا کہ سال کے اختتام پر اگر ان کو جداجدا کیا جائے تو ہر ایک مضمون بطور ایک رسالہ کے بن سکے اور قیمت بھی ایسی مقرر کی جائے گی جو کسی کو ناگوار معلوم نہ ہو…دو سو (۲۰۰) درخواست کے آنے پر جنوری ۱۸۸۸ء سے اس رسالہ کا اجراء شروع ہو جائے۔
المشتہر : فقیر محمد مہتمم سراج الاخبار، جہلم
(۲۱ نومبر۱۸۸۷ء صفحہ۸)
تصانیف
۱۔ زبدۃ الاقاویل فی بترجیح القرآن علی الاناجیل
یہ کتاب مشتملہ ۱۶۸ صفحات ۱۳۰۷ ہجری بمطابق ۱۸۸۹ء کو مصنف کے ذاتی مطبع سراج المطابع ، جہلم سے شائع ہوئی۔ کتاب پر مصنف کا نام یوں تحریر ہے:
’’عمدۃ المناظرین زبدۃ المباحثین مولوی فقیر محمد صاحب مالک سراج الاخبار، جہلم و مصنف حدائق الحنفیہ و رسالہ آفتاب محمدی وغیرہ‘‘
مصنف نے سراج الاخبار کے متعدد پرچوں میں اس کتاب کا تعارف بدیں الفاظ تحریر کیا:
’’اہل تحقیق ہر مذہب وملت کو عموماً اور اہل اسلام کو خصوصاً مژدہ ہو کہ کتاب مندرجہ عنوان جو کچھ عرصہ سے مطبع سراج المطابع ، جہلم میں چھپ رہی تھی-الحمدللہ اب بڑی صفائی اور خوش خطی سے عمدہ کاغذ پر چھپ کر ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو رہی ہے جس میں پادری فنڈر صاحب اور دیگر عیسائیوں کے اس اعتراض کا تفصیلی جواب ہے جو پادری موصوف نے اپنی کتاب حل الاشکال کے چار پانچ ورق میں اناجیل اور نامہ جات کی آیات اور اخلاقی احکام کو نقل کر کے بڑے فخر سے دعوی کیا تھا کہ ایسے روحانی احکام قرآن میں بالکل نہیں پائے جاتے۔ راقم نے ان سب آیات و احکام کو چند فصلوں میں منقسم کر کے پہلے ان کو نقل کیا، پھر ۔۔۔۔احکام قرآن شریف سے اور کچھ بطور نمونہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ سے نقل کر کے اخیر میں بطور قول فیصل قرآن شریف کے احکام کو اناجیل کے بیانات پر من کل الوجوہ ترجیح دے کر اچھی طرح سے ثابت کر دیا ہے کہ قرآن شریف من حیث الاحکام روحانی اور اخلاقی بھی اناجیل پر کلی ترجیح رکھتا ہے۔ اس کتاب کے ابتداء میں ایک مقدمہ لکھا گیا ہے جس میں پانچ امر ایسے ضروری و لابدی بیان ہوئے ہیں جو اناجیل مروجہ کی پوست کندہ قلعی کھولتے ہیں چنانچہ امر اول میں اناجیل مروجہ کا قطعی دلائل سے غیر الہامی ہونا ثابت کر کے امردوم میں جتایا گیا ہے کہ بعض اناجیل غیر مروجہ خصوصاً انجیل برنباس سے الہام منفک نہیں ہو سکتا اور قرآن شریف بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے۔امرسوم میں نبی آخرالزمان اور قرآن شریف کی ضرورت کو دلائل قویّہ سے ثابت کر کے امر چہارم میں محققین مسیحیوں کی شہادتیں تعلیم محمدی کی عمدگی پر درج کی ہیں۔ امر پنجم میں قرآن کی خصوصیات اور اناجیل مروجہ کا ان سے عاری ہونا بیان کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن شریف اور کتب احادیث تو ایک طرف رہے -اناجیل مروجہ تقویت میں اہل اسلام کی معتبر کتب سیر کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ یہ کتاب متذکرہ بالا معلومات حاصل کرنے کے علاوہ واعظین اسلام کے لیے بھی بڑی کارآمد ہے اور ان کو اخلاقی ۔۔۔دے سکتی ہے۔
غرض اس بے نظیر کتاب کی خوبیاں بقول مسلمہ ’’مشک آنست کہ خود ببوئد‘‘ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
المشتہر فقیر محمد مالک سراج الاخبار، جہلم
کتاب کی ترتیب نہایت عمدہ ہے مولانا مختلف موضوعات کے متعلق پہلے اناجیل مروجہ اور نامہ جات حواریین سے مسیحی تعلیمات کو نقل کرتے ہیں اور پھر اس کے مقابل میں آیات قرآنی و احادیث نبوی و کلام صحابہ کو نقل کرتے ہیں اور پھر ’’وجہ ترجیح تعلیم محمدی‘‘ کے عنوان سے فیصلہ بھی تحریر کرتے ہیں۔
کتاب کے آخر میں مولاناابوالدرجات غلام جیلانی صاحب خلف الرشید جناب مولانا محمد عالم صاحب رئیس کہوڑی ضلع گجرات کی منظوم تقریظ و قطعۂ تاریخ بزبان عربی وفارسی موجود ہے۔ علاوہ ازیں مولانا فقیر محمدجہلمی نے خود بھی قطعۂ تاریخ بزبان فارسی رقم فرمایا۔ اخیری صفحات میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے وصایا کو تحریر کیا گیا ہے۔
۲۔ آفتاب محمدی:
یہ رسالہ مشتملہ ۵۲ صفحات مطبع محمدی لاہور سے ۱۳۰۰ ہجری بمطابق /میں شائع ہوا۔ سرورق پرمصنف کا اسم گرامی یوں تحریر ہے:
’’از تصانیف عالم معقول و منقول ماہر فروع و اصول خادم دین محمدی مولوی فقیر محمد صاحب حنفی ایڈیٹر اخبار آفتاب پنجاب ، لاہور‘‘
یہ رسالہ وہابیہ کے رسائل ستارۂ محمدی اور شہاب ثاقب کے جواب میں اور مولانا غلام قادربھیروی اور مولانا بغدادی کی کتاب صمصام قادری و سنان بغدادی کی تائید میں تحریر ہوا۔
پس منظر یہ ہے کہ سیالکوٹ میں وہابیہ کے سرکردہ مولویوں سے مولانا غلام قادر بھیروی اور مولانا بغدادی کا مناظرہ ہوا۔موضوع بحث اسمعیل دہلوی کی گستاخانہ عبارات مندرجہ تقویۃ الایمان تھیں۔ اس مناظرہ میں وہابیہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ مولانا فقیر محمد جہلمی لکھتے ہیں :
’’اس فرقہ کے بڑے بڑے سرغنے علاوہ ضلع سیالکوٹ کے جہلم و وزیر آباد وغیرہ مقامات دُوردراز سے آ کر کوس لمن الملک او رہمچو من دگرے نیست کا دم ما ر ہے تھے مگر سب کے سب ایسے ساکت ہوئے کہ ایک ہی فلاخن میں جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا کے مصداق بنے اور ایسی رُسوائی نصیب ہوئی کہ خدا اعداء کے بھی نصیب نہ کرے۔ اس وقت تو سب لوگوں کو یہی یقین ہو گیا تھا کہ اب یہ فرقہ اپنے پیشوا کے عقائد فاسدہ سے باز آ کر آیندہ کو اس کی تقلید سے توبۃ النصوح کرے گا مگر’’شرم چہ کتی است کہ پیش مرداں بیاید‘‘ تھوڑے ہی دنوں کے بعد شیخ محی الدین تاجر کتب لاہور نے (جس کو ائمہ اربعہ خصوصاً امام اعظم سے دلی بغض و عداوت ہے اور ایک دو ایسے اہل علم کی مدد سے جو بسبب اپنی سادہ لوحی بلکہ مخبوط الحواسی کے بطور دیگر وجہ معیشت کے پیدا کرنے سے معذور ہیں -ہر وقت اسی مخمصہ میں مستغرق رہتا ہے کہ کہیں کوئی نقص حنفیوں میں ملے کہ جلدی چھپوا کر اس کے دام کھرے کروں) بجواب اس اشتہار کے جو صمصام قادری اور سنان بغدادی کے نام سے اس غرض سے مشتہر ہوا تھا کہ مباحثہ مذکور کا راست راست و اصل واصل سب حال اہل دُور دراز کو بخوبی معلوم ہو جائے -ایک رسالہ ستارۂ محمدی کے نام سے تالیف کر کے چھپوایا اور اس میں …اپنے پیشوا کے عقائد باطلہ کو جو سراسر توہین انبیاء علیہم السلام پر دال تھے -مدلل ثابت کر کے ضلوا و اضلوا کا مصداق بنا، جس کا جواب الجواب بھی ترکی بہ ترکی رسالہ نیّر اعظم فی تفضیل رسول الاکرم نام میں چھپ گیا لیکن انہیں ایام میں ایک اور رسالہ شہاب ثاقب نام مولوی عبداللہ صاحب غیر مقلد نے چھپوایا جس میں انہوںنے اپنی دانست میں مؤلف ستارۂ محمدی سے خفت انبیاء کو قوی دلائل سے ثابت کیا چونکہ اس کے مؤلف نے عام اس سے کہ اس نے خوددھوکہ کھایا یادھوکہ دہی عوام کی غرض سے عمداً اپنے دعوی میں کتابوں کی ایسی عبارات کو پیش کیا جن کو ان کے مدعا سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے مگر ان سے عوام کا جلد دھوکہ میں آ جانا متصور ہے اور نیز مؤلف ستارۂ محمدی نے ستارہ کو از سر نو ترمیم اور اس میں کچھ اضافہ کر کے مکرر چھپوایا ہے اور ایسے ایسے مقامات کو جن پر طفل مکتب بھی بازاروں میں تمسخر کرتے اور کہتے پھرتے ہیں کہ تیرہ سو سال تک تو ستارۂ محمدی نہ چمکا تھا اب تیرہویں صدی کے اخیرمیں ایک تاجر کتب کی دوکان سے چمک اٹھا بالکل نکال کر ان کی جگہ اور حشو وزاید بھر دیا-اس لیے اس بندۂ درگاہ نے باوجود عدم فرصتی اور کثرت شواغل دنیاوی کے …یہ انسب جانا کہ جس طرح ہو سکے اس رسالہ کا مختصر جواب لکھ کر مسلمان بھائیوں کو ورطۂ ضلالت میں پڑنے سے روکا جائے اور ساتھ ہی ستارۂ محمدی کی ہفوات کا رد بھی مختصراً لکھ دیا جائے تاکہ یہ جواب الجواب بیک کرشمہ دو کار کا کام دے اور اس کے علیحدہ جواب کے لیے لوگوں کو چنداں محتاج نہ ہونا پڑے پس اس رسالہ کا نام ’’آفتاب محمدی‘‘ رکھا۔‘‘(آفتاب محمدی:۷۔۶ ملخصاً)
۳۔ حدائق الحنفیہ
مولانا فقیر محمد جہلمی صاحب کی تصانیف سے یہ کتاب سب سے زیادہ مشہور و مقبول ہوئی۔غیرمقلدین نے علمائے کرام خصوصاً فقہائے حنفیہ بالخصوص امام اعظم رضی اللہ عنہ کی حد درجہ تحقیر و توہین کرتے تھے چنانچہ مولانا فقیر محمدجہلمی نے علمائے کرام کے تراجم و حالات لکھنے کا قصد کیا اور تین سال کی کامل محنت سے ۱۲۹۷ھ میں مکمل کیا اور ’’حدائق الحنفیہ‘‘ نام رکھا، کتاب کو تیرہ(۱۳) حدائق میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مقدمہ کتاب میں فقہ و فقہاء کرام کی فضیلت اور ان کے طبقات کا بیان ہے۔ حدیقۂ اول چار خیابان پر مشتمل ہے ، پہلے خیابان میں امام اعظم علیہ الرحمۃ کے حالات ، دوسرے میں آپ کا رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہونا، تیسرے میں علمائے کرام کے اقوال سے امام اعظم کے مناقب اور چوتھے میں معترضین کے اعتراضات ومطاعن کا جواب دیا گیا ہے۔
حدیقۂ دوم میں دوسری صدی کے فقہاء و علماء کے حالات ، حدیقۂ سوم میں تیسری صدی اور یونہی بالترتیب حدیقۂ سیزدہم میں تیرہویں صدی کے فقہاء و علماء کے حالات درج ہیں ۔
مطبع نامی نول کشور سے شائع ہوئی۔
۴۔ تکملہ مباحث دینی حافظ ولی اللہ لاہوری و پادری عماد الدین:
مباحثۂ دینی مصنفہ حافظ ولی اللہ لاہوری پہلی مرتبہ مطبع مصطفائی لاہور سے شائع ہوا۔ صفحہ ۳۷ تا ۵۶مولانا فقیر محمد جہلمی کا تحریرکردہ تکملہ ہے۔
پروفیسر خورشید احمد سعیدی صاحب مباحثۂ دینی مصنفہ حافظ ولی اللہ لاہوری کے تعارف میں لکھتے ہیں:
’’اس کے ٹائٹل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مباحثہ حضرت حافظ ولی اللہ اور پادری عماد الدین کے درمیان مارچ ۱۸۶۷ء میں امرتسر میں ہوا تھا۔ اس گفتگو پر تکملہ مولوی فقیر محمد جہلمی نے ۱۸۷۴ء میں تحریر کیا۔ اس مباحثہ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مباحثہ چند جلسوں میں مکمل ہوا تھا۔ پہلا جلسہ ۴ مارچ ۱۸۶۷ء کو امرتسر میں مولوی احمداللہ کے مکان پر ہوا تھا۔ دوسرا جلسہ ۵ مارچ ۱۸۶۷ء کو پادری کلارک کی کوٹھی پر ہوا۔ پہلے جلسے کے موضوعات حقیت اناجیل مروجہ ، صفات باری تعالیٰ ، نبی کا معنی اور مفہوم، نبوت کی شرائط ، بازاروں میں تقسیم ہونے والے توراۃ اور اناجیل کے نسخوں کی صحت و معتبری تھے۔ انہی موضوعات پر پہلے پادری عماد الدین نے گفتگو کی پھر حضرت حافظ ولی اللہ صاحب نے جواب میں اس کے موقف کی کم زوری اور بطلان پر دلائل پیش کیے۔ دوسرے جلسے میں تقریباً انہی موضوعات پر فریقین نے گفتگو جاری رکھی۔ تیسرا جلسہ ۷ مارچ ۱۸۶۷ء کو ہوا۔ اس جلسے میں اخلاقیات، جہاد، کفار وغیرہ کے حوالے سے سوال جواب اور اعتراض ورُدود پیش کیے گئے۔
یہ مباحثہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے کہ عیسائی کیسے حیلے بہانوں سے حضرت حافظ ولی اللہ لاہوری کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ پادری عماد الدین نے اس مباحثہ کو ’’مباحثۂ اتفاقی‘‘ کے نام سے شائع کروایا اور اس میں کئی غلط بیانیاں کیں۔ اس وجہ سے حضرت مولوی فقیر محمد جہلمی نے اصل تفصیلات اور انکشافات بیس (۲۰) صفحات کے تکملہ میں پیش کر دیں۔ فن مناظرہ اور اس کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس مباحثے کا مطالعہ بلا شک و شبہ بہت مفید اور معلوماتی ہے۔‘‘
۵۔ عمدۃ الابحاث فی وقوع الطلاقات الثلاث
مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک اہم کتاب ہے۔ سراج الاخبار مورخہ ۲۹ مارچ ۱۹۱۰ء میں اس کا اشتہار شائع ہوا جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’جس میں تین طلاق ایک دفعہ کے تین ہی واقع ہو جانے کے مسئلہ کو ایسے دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ حافظ ابن قیم اور قاضی شوکانی کے متبعین کو صرف ایک ہی طلاق واقع ہونے کا فتوی دینے سے ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا امامان مسجد اور نکاح خوانوں کو اپنے پاس رکھنا نہایت ہی ضروری ہے۔‘‘
جناب خورشید احمد خان صاحب نے حدائق الحنفیہ(ص:۲۳) کے مقدمہ میں اس رسالہ کا سال تصنیف ۱۹۱۵ء لکھا ہے جو کہ درست نہیں۔
۶۔ تصدیق المسیح (ترجمہ اردو)
تصدیق المسیح فاتح عیسائیت حافظ ولی اللہ لاہوری علیہ الرحمۃ کی لاجواب تصنیف ہے جو کہ عبداللہ آثم کے ۲۳ سوالات کے جواب میں بزبان فارسی تحریر کی۔ مولانا فقیر محمد جہلمی نے نے اس کا اردو ترجمہ کر کے مطبع کوہ طور لاہور سے ۱۸۷۰ء میں طبع کروایا۔ حافظ ولی اللہ لاہوری نے پادریوں سے مباحثہ کے دوران ۲۳ سوالات پادری صاحبان سے کیے تھے جن کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ ۱۸۷۸ء میں تصدیق المسیح(اردو) کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا جس میں پادری صاحبان سے کیے گئے ۲۳ سوالات کو بھی کتاب میں شامل کر دیا گیا۔ تیسرا ایڈیشن ۱۸۹۱ء میں اسلامیہ پریس لاہور سے شائع ہوا۔
مترجم کتاب مولانا فقیر محمد جہلمی ابتدائیہ میں تحریر کرتے ہیں:
’’فقیر محمد ساکن موضع چتن ضلع جہلم جملہ محققین کی خدمت میں عرض رساں ہے کہ عرصہ تخمیناً ۲۰ سال کا ہوا ہے کہ عبداللہ آثم صاحب تحصیل دار ترنتارن نے تئیس (۲۳) سوال اسلام کی بابت تحریر کر کے اہل اسلام کو ان کے جواب کی تکلیف دی تھی جن کے جواب میں کتاب تصدیق المسیح فارسی زبان میں تالیف ہوئی جب سائل نے اپنے سوالات کا جواب باصواب پایا تو صاف روبروئے فاضل بے مثل حضرت حافظ ولی اللہ صاحب لاہوری کے اقرار اس بات کا کیا کہ حقیقت میں یہ میرے سوالات صحیح اور درست نہ تھے محض ناواقفیت کی حالت میں مجھ سے تحریر ہوئے ہیں۔فقط-لیکن اب پھر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہی سوالات بعینہ مطبع مشن لدھیانہ میں چھپ کر عوام کو تقسیم کیے جاتے ہیں اور ناحق بے چارے ناواقف مسلمانوں خصوصاً مشن کے پڑھنے والوں کو کہ جن کو کچھ بھی اپنے مذہب سے واقفیت نہیں جواب کی تکلیف دی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ مدت سے یہ سوالات اسلام کی بابت تحریر ہوئے ہیں مگر آج تک کسی نے ان کا جواب نہیں لکھا جس حالت میں کہ سرکارگردوں وقار نصفت شعار کو از روئے قانون کسی کے مذہب کی تحقیر منظور نہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ کسی طرح سوالات کے جواب لکھنے کی بھی کچھ ممانعت اور پابندی نہیں ہے اس لیے بندہ نے نہایت مناسب سمجھا کہ کتاب مذکور کو واسطے استفادہ عوام کے فارسی سے اردو زبان میں ترجمہ کرے چنانچہ ۱۲۸۷ھ میںحسب تحریک چند احباب اس کو میں نے اردو میں ترجمہ کیا اور بعض بعض جگہ لفظ من مترجم لکھ کر اپنی طرف سے بھی کچھ تشریح و توضیح کر دی اور نام اس کا بدستور وہی تصدیق المسیح جو اصل مطلب پر دلالت کرتا ہے۔‘‘
۷۔ صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیطان فی رد تحقیق الایمان (حواشی)
یہ کتاب بھی مولانا فقیر محمد جہلمی کے استاذ گرامی حافظ ولی اللہ لاہوری صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے امرتسر کے پادری عماد الدین کی کتاب ’’تحقیق الایمان‘‘ کے جواب میں تحریر فرمائی۔ ۱۲۹۸ھ میں مطبع مصطفائی لاہور سے شائع ہوئی۔ کل صفحات ۲۴۸ ہیں۔
کتاب دو مقدموں اور نو فصلوں پر منقسم ہے۔ ابحاث کتاب میں تثلیث، ابنیت مسیح، کفارہ ، نجات، اناجیل کی سندات، اناجیل کے داخلی تناقضات، مباحثہ و مناظرہ کے قواعد و ضوابط، اناجیل میں واقع ہونے والی تحریف، احادیث و معجزات نبوی پر اعتراضات کا جواب وغیرہ شامل ہیں۔مولانا فقیر محمد جہلمی نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس کتاب پر حواشی لکھ کر شائع کروایا تھا۔ (حدائق الحنفیہ :۲۲)
۸۔ ابحاث ضروری ( حواشی)
ابحاث ضروری مولانا فقیر محمد جہلمی صاحب کے استاذ گرامی حافظ ولی اللہ لاہوری علیہ الرحمۃ کی تصنیف ہے جو کہ پہلی بار مطبع مصطفائی سے ۱۲۸۸ھ بمطابق ۱۸۷۱ء میں شائع ہوئی اور بعد ازاں جواب الجواب رسالہ شکوک کفارہ کے ساتھ مطبع محمدی لاہور سے ۱۸۷۸ء میں چھپی۔ اس میں ایک مقدمہ اور چھ فصول ہیں۔ ان میں عیسائیوں کے متفرق اور مختلف فرقے، عہد نامہ جدید کی مروجہ اور مردودہ کتب کی تفصیل، اعمال حسنہ کی تاکید، نجات کے لیے فدیے اور کفارے کے عقیدے کا بطلان، رد اُلوہیت مسیح علیہ السلام اور ان کی انسانیت کا اثبات، اناجیل میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات اور ان پر عیسائیوں کے شبہات کا رد، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی جامعیت اور اس پر عیسائیوں کے اعتراضات کا رد اور آخر میں قرآن کریم کا کلام الٰہی ہونا اور اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا رد شامل ہیں۔ (ابحاث ضروری، تقدیم:۲۰)
مولانا فقیر محمد جہلمی نے اس پر وقیع حواشی لکھ کر شائع کروایا۔ ۱۴۳۲ھ میں اس کا جدید ایڈیشن پروفیسر خورشید احمد سعیدی صاحب کی تحقیق سے دارالاسلام لاہور سے شائع ہوچکا ہے۔
۹۔ غایۃ التنقید فی وجوب التقلید
اس کتاب کا ایک ناقص نسخہ ہم کو پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں موجود ذخیرہ حکیم محمد موسیٰ امرتسری سے دستیاب ہوا۔ سرورق اور اخیری صفحات نہ ہونے کے سبب اشاعتی معلومات بہم نہ ہو سکیں۔ سبب تالیف کے متعلق مولانا لکھتے ہیں:
’’نیاز مند فقیر محمد جہلمی اپنے دینی بھائیوں کی خدمت میں گذارش کرتا ہے کہ ترک تقلید کی مذمت اور اس کے وجوب کے اثبات میں اگرچہ اکثر اہل علم حنفی بھائیوں نے بہت سے کتابیں و رسالے تصنیف کر کے اپنی طرف سے اسلام کی سچی خیر خواہی اور واقعی ہمدردی کا فرض ادا کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا۔ جزاہم اللہ خیرالجزائ- مگر جہاں تک مجھے علم ہے وہ کتابیں وغیرہ زیادہ تر تقلید مذہب معین کے اثبات میں پائی جاتی ہیں حالانکہ اب غیر مقلدین نے اپنے نفس و ہوا کی بلند پروازی و آزادی کو یہاں تک وسعت دے دی ہے کہ بے چاری تقلید مذہب معین تو ایک طرف رہی خود ادلہ اربعہ شرعیہ میں سے اجماع و قیاس مجتہد اور ائمہ مجتہدین کی تقلید مطلق سے تحریراً و تقریراً انکار ہو کر ہر ایک غیر مقلد کچھ لکھا پڑھا خود مجتہد بننے اور ہم چو من دگرے نیست کا دم مارنے لگا ہے…
پھر غضب یہ کہ اپنا نام عوام کو ورغلانے کے لیے’’ اہل حدیث‘‘ رکھا ہے۔ العیاذ باللہ ۔ علاوہ اس کے صرف یہی نہیں بلکہ انہیں غیرمقلدین بظاہر عاشقین سنت نبویہ میں سے ایک گروہ نے جو پہلے بات بات پر حدیث ہی حدیث پکارا کرتا تھا یہاں تک تقلید سے نفرت میں ترقی کی ہے کہ خود رسول خدا فداہ ابی و امی کی سنت موکدہ و غیرہ مرویہ کتب احادیث کی تقلید کو بھی شرک فی الالوہیت قرار دے کر ترک کر دیا ہے اور برملا تقریراً و تحریراً فتوی دے دیا ہے کہ سنت نبویہ صرف وہی اقوال و افعال ہیں جو قرآن مجید میں صریحاً مذکور ہیں اور کتب احادیث میں جس قدر احکام قرآن سے علاوہ مروی ہوئے ہیں معاذ اللہ وہ سب محدثین کا اختراع ہیں جو ہر گز قابل عمل در آمد نہیں ہیں حالانکہ انہیں غیر مقلدین کی شاخ نیچریہ و مرزائیہ تو ان احادیث کی قائل بھی تھی جن پر صحابہ کرام کا تعامل ہوا ہے مگر یہ برائے نام اہل قرآن یعنی چکڑالوی شاخ ترک تقلید میں سب پر سبقت لے گئی ہے اور جس طرح غیر مقلدین ائمہ اربعہ کے مقلدین کو مشرک کہہ دیا کرتے تھے ویسے ہی خود غیر مقلدین ہی سے فرقہ چکڑالویہ مقلدین سنت نبویہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مشرک کہہ رہا ہے جس کا یہ معنی ہے کہ غیر مقلدین کو مقلدین کے ناحق مشرک کہنے کی سزا خود اپنے ہی ایک فرقہ کے لوگوں سے مل رہی ہے مگر چونکہ چکڑالوی فرقہ سے اسلام کے دو بڑے ارکان قرآن و حدیث میں سے ایک رکن یعنی حدیث کا انکار کرنا کفر ہے اور اسلام کے صراط مستقیم کے لیے ائمہ مجتہدین کی ترک تقلید ام الفاسد اور بے دینی کی جڑ ثابت ہوئی ہے اور ہر کس و ناکس کو اپنے اپنے فہم و رائے سے اپنا اپنا من بھاتا مسئلہ نکال کر اس پر خود چلنے اور دوسرے لوگوں کو چلانے سے شرع اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، اس لیے میرا مدت سے ارادہ تھا کہ تقلید کے بارے میں زمانہ کے مطابق کوئی ایسا محدثانہ و فقیہانہ رسالہ لکھا جائے جو ہر قسم کے غیر مقلدین وغیرہ کو شامل ہو اور اس میں ہر ایک شاخ کے مذاق کے مطابق تقلید کے اثبات میں ایسے دلائل دیے جائیں کہ ان کی تسلیم میں کسی کو بھی چون و چرا کی گنجائش نہ ہو سکے لیکن اس ارادہ کے پورا ہونے میں چند در چند موانع حائل ہوتے رہے مگر اب اللہ جل و علا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ باوجود عدم فرصتی کے بھی حسب تغیر حالات منکرین تقلید کے محض قرآن و احادیث اور ان کی تفاسیر و شروح سے ہی تقلید ائمہ اربعہ کے اثبات میں رسالہ لکھا گیا۔‘‘(ص:۲)
۱۰۔ صلوٰۃ الوترکصلوٰۃ المغرب:
یہ کتاب مولوی احمد اللہ و مولوی حسام الدین صاحبان ساکن کوٹلہ ائمہ تحصیل جہلم جو ایک وتر یا تین رکعت بیک تشہد کے قائل ہیں- کے ایک فتوی کے جواب میں تحریر کی۔
مولانا فقیر محمد جہلمی لکھتے ہیں:
اس رسالہ میں جو ۱۲۰ صفحہ کا ہے نماز وتر کا حنفی مذہب کے بموجب ۲۳ احادیث و آثار سے تین رکعت وتشہد ہونا ثابت کیا گیا ہے اور غیر مقلدین صرف ایک رکعت وتر یا تین رکعت بیک تشہد کے قائل ہیں ان کی کل دلیلوں اور اعتراضوں کی باشرح و بسط ایسی خوبی و خوش اُسلوبی سے تردید کی گئی ہے کہ جس سے سوائے سکوت کے ان کو کوئی چارہ نہیں۔ (سراج الاخبار مورخہ ۲۶ دسمبر ۱۸۹۸ء ص۸)
جناب خورشید احمد خان صاحب نے حدائق الحنفیہ کے مقدمہ میں درج ذیل کتب کو بھی مولانا فقیر محمد جہلمی صاحب کی تصنیف قرار دیا ہے جبکہ یہ درست نہیں:
(۱)مجمع الاوصاف فی تردید اہل البدع والاعتساف:
اس ضمن میں مولانا ابوالفیض محمد حسن کا ایک اشتہار سراج الاخبار مورخہ ۲۳ اپریل ۱۸۹۴ء میں لکھتے ہیں:
’’مجمع الاوصاف فی تردید اہل البدع والاعتساف-کتاب مندرجہ عنوان مولوی احمد الدین صاحب ساکن ٹھاکرہ موہڑہ ضلع راول پنڈی نے لکھی ہے۔ میں نے اس کتاب کو جہاں تک دیکھا ہے ، خوبیوں سے لبا لب پایا ہے۔ شیعہ کے بہتانات کو ان کی ہی کتابوں سے بقید صفحہ تردید کرتی ہے، تمام مسائل مخترعہ شیعہ پر بحث کرتی ہے اور ان کی تردید کافی دلائل سے پیش کرتی ہے۔ کتاب مذکور تحفہ روز گار ہے، اس لیے خدمت میں مسلمانوں کے گذارش ہے کہ وہ مولوی صاحب کو اس کتاب کے چھپوانے کے لیے اپنی استطاعت کے موافق نقد روپیہ سے دے کر ثواب حاصل کریں تاکہ کتاب مذکور چھپ کر ہر ایک آنکھ کا نور اور ہر ایک دل کا سرور ہو جائے۔ راقم: ابوالفیض محمد حسن ساکن بھیں تحصیل چکوال‘‘
(۲ ) ہدیۃ النجبائ: مولانا کرم الدین دبیر کی تصنیف ہے حال ہی میں اس کا جدید عکسی ایڈیشن جناب میثم عباس رضوی صاحب نے شائع کیا ہے۔
(۳)السیف الصارم لمنکر شان امام االاعظم: مصنف نامعلوم
(۴) السیف المسلول لاعداء الخلفاء الرسول:یہ کتاب بھی مولانا کرم الدین دبیر صاحب کی تصنیف ہے جو کہ رسائل ثلاثہ مطبوعہ رفیق عام پریس لاہور میں شامل ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.