You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
بدنام زمانہ کتاب "تقویۃ الایمان" مصنفہ مولوی اسماعیل دہلوی(جو دیوبندی اور اہل حدیث وہابیوں کے امام ہیں) سے جس فتنہ(سرکار صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلّم کی شان میں گستاخیوں) کا آغاز ہوا تھا – تحذیرالناس مصنفہ مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی پر آ کر زور پکڑ گیا بلکہ اسلامی معاشرے کی رگوں میں سرطان بن کر اتر گیا- رہی سہی کسر دیگر (دیوبندی گستاخانہ)کتابوں اور علماۓ دیوبند کی تاویلات باطلہ نے نکال دی ۔
تقویۃالایمان پر جو مباحثہ شاہ اسماعیل اور مولانا منور الدین کے درمیان ہوا اس پر مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی خامہ فرسائی کی- ان کا بیان ہے :
"مولانا محمد اسماعیل شہید، مولانا منورالدین کے ہم درس تھے ۔ شاہ عبدالعزیز کے انتقال کے بعد جب انہوں(مولوی اسماعیل) نے تقویۃ الایمان اور جلاءالعنین لکھیں اور ان کے مسلک کا ملک بھر میں چرچا ہوا تو علماء(حق)میں ہلچل پڑ گئی ۔ ان(مولوی اسماعیل) کے رد میں سب سے ذیادہ سرگرمی بلکہ سربراہی مولانا منورالدین نے دکھائی ، متعدد کتابیں لکھیں اور 1248 ھ والا مشہور مباحثہ جامع مسجد (دہلی)کیا۔ تمام علماۓ ہند سے فتوی مرتب کرایا۔پھر حرمین سے فتوی منگوایا۔ان(مولانا منور الدین) کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ابتدا میں مولانا اسماعیل دہلوی اور ان کے رفیق اور شاہ صاحب کے داماد مولانا عبدالحی کو بہت کچھ فہمائش کی اور ہر طرح سے سمجھایا لیکن جب ناکامی ہوئی تو بحث و رد میں سرگرم ہوۓ اور جامع مسجد کا شہرہ افاق مناظرہ ترتیب دیا۔جس میں ایک طرف مولانا اسماعیل اور مولانا عبدالحی تھے اور دوسری طرف مولانا منورالدین اور تمام علماۓ دہلی"۔
(آزاد کی کہانی ص79 مطبوعہ چٹان پریس لاھور)
مولانا منورالدین ، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد اور شاہ اسماعیل کے ہم سبق تھے۔لیکن تقویۃ الایمان کی دل خراش اور ایمان سوز عبارات وہ بھی گوارا نہ کر سکے اور شاہ اسماعیل کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آ گۓ جن کے ساتھ دہلی کے تمام علماۓ اہل سنت بھی شامل تھے ۔ دہلی کے یہ تمام علماء یقینا اسی گھرانے کے فیض یافتہ ہوں گے جس گھرانے کے ساتھ روحانی طور پر اکابر دیوبند کا نام نہاد رشتہ جوڑا جاتا ہے جس کی تردید مولانا انظر کشمیری دیوبندی خود کر چکے ہیں۔
بتایۓ مولانا منورالدین اور دہلی کے علماء حق کو کس "احمد رضا" نے بھڑکایا تھا کہ وہ مولوی اسماعیل دہلوی کے خلاف اکھٹے ہوئے اور نہ صرف اکھٹے ہوئے بلکہ فتوے بھی دیے؟
مولانا منورالدین پر ہی بس نہیں بلکہ شاہ اسماعیل دہلوی کے چچا زاد بھائی مولانا شاہ مخصوص اللہ محدث دہلوی اور مولانا شاہ محمد موسی بھی ان(مولوی اسماعیل) کے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ ۔یہ دونوں بھائی اپنے چچا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد رشید تھے۔انہوں نے بھی ڈٹ کر شاہ اسماعیل کا مقابلہ کیا ان کے خلاف کتابیں اور رسائل لکھے اور خاندانی رشتے کا لحاظ پس پشت رکھ کر حق کو خوب آشکار کیا۔
بتايۓ یہ بھائی کس "احمد رضا" کی شہ پر اٹھ کھڑے ہوے تھے ؟
"تحذیرالناس مصنفہ قاسم نانوتوی دیوبندی" میں جب ختم نبوت کے مسلمہ معنی کا انکار کر کے فتنہ برپا کیا گيا تو بقول اشرف علی تھانوی دیوبندی کہ:
"جس وقت مولانا نے تحزیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کیساتھ موافقت نہیں کی ، بجز مولانا عبدالحی صاجب کے"(الافاضات الیومیہ ج5 ص 294 مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)
(نوٹ- بعد میں مولانا عبدالحی صاحب بھی مخالف ہو گۓتھے)
تحذیرالناس مصنفہ قاسم نانوتوی پر جو ہنگامہ شروع ہوا اور نانوتوی صاحب کی تکفیر کی گئی اور ہندوستان بھر کے علماۓ حق مخالف ہو گۓ وہ کس "احمد رضا" کی شہ پر مخالفت پر کمر بستہ ہوۓ۔ اس وقت اگرچہ امام احمد رضا حاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ 16 برس کے ہو چکے تھے اور فتاوی کی مسند سنبھال چکے تھے مگر کیا اس وقت کے علماۓ ہند سب کے سب اتنے نا اہل تھے کہ انہیں فتوی دینے کا سلیقہ نہیں آتا تھا اور یا پھر سب کے سب امام احمد رضا کے گھرانے کے نیاز مند تھے اور دیوبند کے اکابر سے کوئی دلی پرخاش رکھتے تھے؟- امام احمد رضا حان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو ان علماۓ حق کی تائید میں اس وقت قلم اٹھایا جب ہندوستان میں پے در پے ناموس مصطفی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلّم پر حملے شروع ہوۓ- بد قسمتی کہیے کہ ان حملوں کا مرکز دیوبند تھا اور نشانے پر محبوب پروردگار جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ تھی ۔ سید محمد فاروق القادری لکھتے ہیں:
"فاضل بریلوی (امام احمد رضا خان) کی درشتی کا رونا رونے والے تقویۃ الایمان ، صراط مستقیم ، براہین قاطعہ اور حفظ الایمان کی ان جگر سوز اور دل خراش عبارات کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے دل و دماغ جھنجھوڑ کر دکھ دیۓ ہیں"۔(فاضل بریلوی اور امور بدعت ص 94)
۔
طالبِ دعا
ابوالبتول صفدر
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.