You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ایڈزجیسی مہلک بیماری کے متعلق اہم وضروری معلومات
مذہب اسلام بیماریوں کے علاج سے زیادہ احتیاطی تدابیر پر زوردیتاہے
ایڈز کاوائرس،اشارات وعلامات اور احتیاطی تدابیر
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
دْنیا بھر میں یکم دسمبر کو ’’ایڈز‘‘ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ لہٰذا دنیا بھر میں اس دن کی آگہی کیلئے پہلے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد یکم دسمبر 2015ء کیلئے بہت سے پروگرام ترتیب دے چکی ہے اور اس دفعہ اسکا موضوع رکھا گیا ہے۔ ’’اب وقت آگیا ہے عمل کا۔‘‘ایڈز ایک مہلک اور جان لیوا مرض ہے جس کا انکشاف 1981ء میں ہوا۔ قدرت نے انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے ایک نہایت ہی مؤثر دفاعی نظام سے نوازا ہے جس کو مدافعتی نظام کہتے ہیں۔ اسی کے طفیل جسم میں انسانی قوت مدافعت کار گزار ہوتی ہے۔ اس مدافعتی نظام میں خرابی کے باعث انسان مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔مدافعتی نظام کے کمی کے باعث پیدا ہونے والے ایسے امراض جن کاانسانی جسم عام طور پر مقابلہ کر کے محفوظ رہتا ہے وہ بھی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔
وائرس جسم میںکیسے داخل ہوتا ہے؟:
زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا۔ لیکن اب یہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، اور ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تین کروڑ چھیاسی لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔قابل اطمینان بات یہ ہے کہ ایڈزکا وائرس کسی متاثرہ شخص کے قریب ہونے ، بات کرنے، چھونے یا اس کی استعمال کردہ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے جسم میں داخل نہیں ہوتا۔ ایڈز کا مرض ایک وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس کے حملے کے بعد جو بھی بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ اس جراثیم کو ایچ آئی وی (HIV) کہتے ہیں۔ اس کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنانے والا وائرس بھی کہتے ہیں۔ ایڈز کا یہ وائرس زیادہ تر خون اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ جسم کی دوسری رطوبتوں یعنی تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ میں بھی پایا جاسکتا ہے مگر تھوک، آنسو، پیشاب اورپسینہ بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ بیماری صرف خون اور جنسی رطوبتوں کے ذریعے ہی پھیلتی ہے۔یہ وائرس کسی بھی متاثرہ شخص سے اس کے جنسی ساتھی میں داخل ہو سکتا ہے یعنی مرد سے عورت، عورت سے مرد، ہم جنس پرستوں میں ایک دوسرے سے اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں ۔ جنسی پھیلاؤ ترقی یافتہ اور افریقی ممالک میں بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہے۔ایڈز کاوائرس سب سے زیادہ نقصان خون کے سفید خلیات کو پہنچاتا ہے ،جن کاسائنسی نام T-خلیہ ہے ، ان سفید خلیات کو CD4 خلیات بھی کہا جاتا ہے۔جب یہ وائرس ، خون کے CD4 خلیات کو مستقل مارتا اور ختم کرتا رہے تو انسانی جسم میں انکی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے اور اسی کی وجہ سے انسان میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ سفید خلیات کی CD4 قسم مدافعتی نظام میں بہت اہم کردار رکھنی ہے اور جب یہ وائرس کے باعث ختم ہوجاتے ہیں تو جسم کی مدافعت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ عام طور پرانسانی جسم میں ان کی تعداد لگ بھگ ایک ہزار تک ہوتی ہے اور جب یہ HIV کی وجہ سے کم ہو کر 200 تک رہ جائے تو ایسے شخص کو ایڈز کا مریض تشخیص کر دیا جاتا ہے۔
خون سے ایڈز کا پھیلاؤ:
خون کے اجزا کے ذریعے ایڈز کی بیماری درج ذیل صورتوں میں پھیلتی ہے۔(۱)جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ خون یا خون کے اجزا کو کسی دوسرے مریض میں منتقل کیا جائے (۲)جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ سرنج اور سوئیاں دوبارہ استعمال کی جائیں(۳)وائرس سے متاثرہ اوزار جلد میں چُبھنے یا پیوست ہونے سے مثلاً کان، ناک چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور جراحی کے دوران استعمال ہونے والے آلات(۴) ایڈز کا وائرس متاثرہ ماں سے بچے میں حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد منتقل ہو سکتا ہے وغیرہ۔ اگر کوئی بھی شخص اوپر بیان کیے گئے بیماری کے پھیلاؤ کے کسی ایک بھی طریقے سے گزرا ہو تو اس کو ایڈز کے جراثیم متاثر کر سکتے ہیں خواہ وہ کسی بھی عمر اور جنس کا ہو۔
اشارات و علامات:
ایڈر کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے اس کا وائرس انسانی جسم میں کئی مہینوں یا برسوں تک رہ سکتا ہے۔ کسی شحض کے ایڈز کے جراثیم کی اینٹی باڈیز (Antibodies) اس سے متاثر ہونے کے چھ ہفتے یا اس سے زیادہ عرصہ میں بنتی ہیں۔ جسم میں ایڈز کے جراثیم کی موجودگی معلوم کرنے کے لیے خون میں اینٹی باڈیز کی موجودگی کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ اینٹی باڈیز کسی کو بھی یہ بیماری پیدا ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ جس کسی میں بھی ایڈز کا یہ وائرس داخل ہو جاتا ہے وہ اس کو دوسرے میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت بیماری کے شروع میں یا بیماری کے آخر میں بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔شروع میں غیر محسوس معمولی زکام کی بیماری ہو سکتی ہے۔ جس پر عموماً دھیان نہیں دیا جاتا۔ جس کے بعد مریض مہینوں یا برسوں تک بالکل ٹھیک نظر آ سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ مکمل ایڈز کا مریض بن جاتا ہے۔ایڈز کے مریض کی بڑی علامات درج ذیل ہیں۔(۱)مختصر عرصہ میں جسم کا وزن دس فیصد سے زیادہ کم ہو جانا(۲)ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک دست ہونا(۳)بخار کا ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک رہنا(۴)لمف نوڈ میں تبدیلی(۵)سوتے میں پسینہ آنا(۶)کھانسی اور سانس میں تنگی(۷)مستقل تھکاوٹ(۸)جلد پر زخم (۹)مختلف اقسام کے نمونیائی امراض(۱۰)آنکھوں میں دھندلاہٹ اور سردردوغیرہ۔اس کے علاوہ بھی کئی نشانیاں ہیں۔ لہٰذا مستند ڈاکٹر کے پاس جا کر ایڈز کے ٹیسٹ کروانے چاہئے۔ اسکی علامات مختلف افراد میں مختلف مل سکتی ہیں۔
احتیاطی تدابیر:
ایڈز سے بچنے کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر کرنی چاہئے۔(۱)ہمیشہ اپنے جیون ساتھی تک محدود رہیں(۲)جنسی بے راہ روی سے بچیں(۳)اگر دونوں جنسی ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی ایڈز کا مریض ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے غلاف کا صحیح استعمال کریں(۴)اگر ٹیکہ لگوانا ضروری ہو تو ہمشیہ غیر استعمال شدہ نئی سرنج استعمال کریں (۵)خون کی تبدیلی اسی وقت کروائیں جب اشد ضرورت ہو (۶)اگر زندگی بچانے کے لیے خون کی تبدیلی ضروری ہو تو اس بات کا یقین کر لیں کہ منتقل کیا جانے والا خون ایڈز اور یرقان وغیرہ کے وائرسز سے مکمل طور پر پاک ہو۔مزید معلومات کے لیے کتابوں سے استفادہ کیجئے یا براہ راست ڈاکٹر سے ملاقات کیجئے۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.