You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
پیارے اسلامی بھائی !کسی بھی دل کی چارحالتیں ہوتی ہیں :
(1)بلندی (2)کشادگی (3)پستی (4) سختی ۔
-----------------------------------------
پس ....دل کی بلندی ذکر ُاللہ عزوجل میں ہے ،۔۔۔۔۔۔
-----------------------------------------
اس کی کشادگی رضائے الٰہی عزوجل پالینے میں ہے ،۔۔۔۔۔۔
-----------------------------------------
اس کی پستی غیر اللہ عزوجل میں مشغول ہونے میں ہے ۔۔۔۔۔۔
-----------------------------------------
اور اس کی سختی یادِ الٰہی عزوجل سے غافل ہوجانے میں ہے ۔
-----------------------------------------
دل کی بلندی کی تین علامات ہیں :
(1) اطاعتِ الٰہی عزوجل میں دل کی موافقت کا پایا جانا ،۔۔۔۔۔۔
(2) احکامِ شرع کو پورا کرنے میں دل کی طرف سے مخالفت کا نہ ہونا،....اور
(3)دل میں عبادت کے شوق کا مستقل ہونا ۔
-----------------------------------------
دل کی کشادگی کی علامات بھی تین ہیں:
(i) توکل (ii)صدق (iii) یقین ۔
دل کی پستی کی نشانیاں بھی تین ہیں :
(۱)خود پسندی ،(۲) دکھاوا، (۳)دنیا کی حرص۔
-----------------------------------------
دل کی سختی کی بھی تین علامات ہیں :
(1)دل سے لذتِ عبادت کا جاتے رہنا ،۔۔۔۔۔۔
(2) دل میں نافرمانی کی کڑواہٹ کا محسوس نہ ہونا،۔۔۔۔۔۔اور
(3) حلال کو بلادلیل مشکوک سمجھنا ۔
-----------------------------------------
رسولِ اکرم ،نورِ مجسّم، شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے :
''بے شک ابنِ آدم کے بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہوجائے توساراجسم درست رہتاہے اوراس کے سبب تمام بدن درست ہو جاتاہے ،سنو! وہ دل ہے۔
(مسند ابی داؤد الطیالسی، الجزء الثالث، النعمان بن بشیر، الحدیث۷۸۸،ص۱۰۶۔۱۰۷)
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبراء لدینہ ، الحدیث۵۲،ص۶)
اس حدیثِ پاک سے ظاہر ہو ا کہ جسم میں اصل دل ہی ہے اوروہ امیر(یعنی نگران) ہے کہ ساراجسم اس کی اطاعت کرتاہے اورباقی سارے اعضاء رعایا کی طرح ہیں۔
-------------------------
قلب کے معانی:
لفظ ِ قلب دو معنی پر بولاجاتاہے۔
پہلا معنی:
قلب یعنی دل:
یہ ایک صنَوبری شکل(یعنی چلغوزہ کی طرح) کا گوشت ہے ،جو سینے کے بائیں جانب رکھا گیا ہے، جو اندر سے کھوکھلا ہے ، جس میں سیاہ خون ہوتاہے، یہ روح کا معدن اوراس کی جگہ ہے اوریوں ہی اسی شکل میں یہ گوشت جانوروں اورفوت شدہ لوگوں کے پاس بھی ہوتاہے۔
دوسرا معنی:
یہ ایک روحانی ربّانی لطیفہ(یعنی حقائق واسرارکی معرفت کامحل) ہے اوراس کا جسمانی قلب سے تعلق ہوتاہے اور یہی لطیفہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معرفت رکھتاہے اوراس چیز کا اِدراک کرنے والا ہوتاہے ،جسے خیال ووہم نہیں سمجھ سکتے اور یہی حقیقتِ انسان ہے ، اسی کو خطاب ہوتاہے، اِسی معنی کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان میں اشارہ کیا گیا ہے:
---------------------------------
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ
---------------------------------
ترجمۂ کنزالایمان : بے شک اس میں نصیحت ہے اس کے لئے جو دل رکھتا ہو۔
(پ26، ق: 37)
اگر دل سے مراد صنوبری شکل کا گوشت ہو،تو یہ ہر شخص کے پاس موجودہوتا ۔
جب یہ بات جان لی، تو یہ بھی سمجھ لو کہ اس(روحانی وربّانی) لطیفہ کا صنوبری شکل کے گوشت سے بہت گہرا تعلق ہے، جو بیان سے باہر ہے ،بلکہ یہ مشاہدہ اور عیان پر موقوف ہوتاہے اوراس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے ،کہ دل اس لطیفہ کے لئے بادشاہ کی طرح ہے اوریہ گوشت اس کے لئے گھر اورمملکت کی طرح ہے (اس لطیفہ کا دل سے اعراض جیساتعلق نہیں)کیونکہ اگر اس کا دل سے تعلق اَعراض کے تعلق کی طرح ہوتاتو اس کے بارے میں یہ فرمانِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ درست نہ ہوتا:
---------------------------
اَنَّ اللہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ
--------------------------
ترجمۂ کنزالایمان:اللہ کا حکم آدمی اوراس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجاتاہے ۔ (پ9،الانفال:24)
=====================
د ل کے لشکر:
جب دل کے بارے میں معلوم ہوگیا تو اب ہم دل کے لشکروں کو بیان کرتے ہیں۔
دل کے لشکر دوقسم کے ہیں:
--------------------
ایک وہ لشکر جو آنکھوں سے دکھائی دیتاہے اوریہ ہاتھ، پاؤں ،آنکھ اور دیگر اعضاء ہیں ۔
اور
دوسرا وہ لشکر ہے جو بصیرت سے دکھائی دیتاہے (یعنی دل کی آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے ) اوریہ وہ صفات ہیں جن کا عنقریب ذکر ہوگا ۔
---------------------------------------------
اس پر نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کایہ فرمانِ نصیحت نشان بھی دلالت کرتا ہے:
بے شک انسانی بدن میں ایک لوتھڑا ( یعنی گوشت کا ٹکڑا)ہے،
اگر وہ درست ہو جائے تو ساراجسم درست ہوجاتا ہے،
سُن لو! وہ دل ہے۔
---------------------------------
(1) اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ
--------------------------------
ترجمۂ کنزالایمان:یہ ہیں وہ جن کے دلوں پراللہ نے مُہرکردی۔
(پ26، محمّد:16)
--------------------------------
(2) کَلَّا بَلْ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ
-------------------------------
ترجمۂ کنزالایمان : کوئی نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔
(پ30،المطففین:14)
میں مُہر اورزنگ سے یہی مراد ہے
اور
دل کی مثال آئینہ کی سی ہے۔ جب تک وہ زنگ اورگرد وغبار سے صاف رہتاہے، اس میں اشیاء دکھائی دیتی ہیں لیکن جب اس پر زنگ غالب آجاتاہے تو اسے صاف کرنا اوراس سے زنگ کو دور کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہ زنگ اس پر غالب آچکا ہوتاہے اوراس پر اس کی تہہ جم چکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ضائع ہوجاتاہے اور اس کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی صاف کرنے والا اسے صاف اوردرست نہیں کرسکتا ،مُہرا ورزنگ سے یہی مراد ہے۔
حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ ذیشان ہے:
بے شک دل کو بھی زنگ لگ جاتاہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتاہے۔
عرض کی گئی:
اس کی صفائی کیسے ہوگی ؟
فرمایا:
موت کو یاد کرنے اورقرآن ِپاک کی تلاوت کرنے سے۔
--------------------
(شعب الایمان للبیھقی، باب فی تعظیم القرآن، فصل فی ادمان تلاوتہ، الحدیث۲۰۱۴،ج۲،ص۳۵۲)
جب دل کی حکمرانی مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے تو شیطان حاکم بن جاتاہے اوراچھی صفات بُری صفات سے بدل جاتی ہیں۔
نُور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرما نِ عا لیشان ہے:
دل چار اقسام کے ہیں:
-----------------
(۱)وہ دل جو صاف ہے اوراس میں چراغ روشن ہوتاہے، یہ مؤمن کا دل ہے
(۲)وہ دل جو سیاہ اوندھا ہوتاہے، یہ کافر کا دل ہے
(۳)وہ دل جس پر غلاف چڑھا ہوتاہے اوراس کا غلاف بندھا ہوتاہے، یہ منافق کا دل ہے
(۴)وہ دل جس میں ایمان اورنفاق کی آمیزش ہوتی ہے، اس میں ایمان اس سبزی کی مثل ہے جسے اچھا پانی نشوونما دیتاہے اوراس میں نفاق کی مثال اس زخم کی طرح ہے جسے پیپ بڑھاتی ہے، پس اس پر جو مادّہ غالب آجاتاہے اسی کا حکم اس پر لگایا جاتاہے۔اورایک روایت میں ہے کہ دل کو وہی (غالب آنے والا)مادہ لے جاتاہے۔
-----------------
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی سعید الخدری، الحدیث۱۱۱۲۹،ج۴، ص۳۶بتغیرٍ)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:
------------------------------
اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبْصِرُوۡنَ ﴿201﴾
------------------------------
ترجمۂ کنزالایمان: بے شک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے، ہوشیار ہوجاتے، اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہيں۔(پ9،الاعراف:201)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان میں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے دل کی بصیرت اورصفائی حاصل ہوتی ہے اور تقویٰ سے ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پر قدرت ہوتی ہے۔
پس تقویٰ ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا دروازہ،ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کشف کا دروازہ اورکشف بہت بڑی کامیابی کی کنجی ہے۔
جان لو!
دل کی مثال آئینہ کی طرح ہے اورعلوم وحقائق کی مثال ان تصاویر کی طرح ہے جو آئینہ میں دکھائی دیتی ہیں۔
آئینہ بھی شئ ہے اورحقائق بھی بالذات شئ ہیں اورآئینہ میں تصویر کا حصول بھی شئ ہے، پس یہ تینوں اشیاء ہیں۔
پس''علم''آئینہ میں کسی چیز کا حصول ہے اور''دل'' آئینہ کی مثال ہے اور''حقائق'' بالذات ایک تیسری چیز ہے ۔
جب یہ معلوم ہوگیا تو جان لو! آئینہ میں صورت کے واضح نہ ہونے کے پانچ اسباب ہیں:
----------------------
پہلا سبب:آئینہ اچھا نہ ہواور وہ یہ ہے کہ ابھی اسے آئینہ کی شکل نہ دی گئی ہو اور نہ ہی پالش کیا گیا ہو۔
----------------------
دوسرا سبب: اس میں گدلا پن ہواورزنگ لگا ہواہو۔
----------------------
تیسرا سبب: جس چیز کو آئینہ میں دیکھنا ہو وہ اس سے ہٹی ہوئی ہو، وہ یوں کہ وہ چیز آئینہ کے پیچھے ہو۔
----------------------
چوتھا سبب : آئینہ اورصورت کے درمیان پردہ لٹکا دیا گیا ہو۔
----------------------
پانچواں سبب:جس چیز کی صورت دیکھنا مقصو د ہے اس کی سمت معلوم نہ ہو۔
----------------------
اسی طرح دل بھی ایک آئینہ ہے جسے اس مقصد کے لئے تیار کیا گیا ہے کہ اس میں تمام مامورات کے حقائق منکشف ہوں لیکن پانچ اسباب کی وجہ سے دل حقائق سے خالی ہوتا ہے۔
----------------------
پہلا سبب : دل میں ہی کمی اورنقصان ہو جیسے بچے اورپاگل کا دل۔
----------------------
دوسرا سبب:گناہوں کی کدورت اورخباثت جو خواہشات کی کثرت کی وجہ سے دل پر جمع ہوگئی ہو، اِسی کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے فرمان میں اشارہ فرمایا:
کَلَّا بَلْ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ
ترجمۂ کنزالایمان : کوئی نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔(پ30،المطففین:14)
اورسیِّدُ المبلّغِین،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ والاشان ہے :
مَنْ قَارَفَ ذَنْبًا فَارَقَہ، عَقْلٌ لَمْ یَعُدْ اِلَیْہِ اَبَدًا
ترجمہ:جو شخص کوئی گناہ کرتاہے اس سے عقل جدا ہوجاتی ہے اور کبھی بھی اس کی طرف واپس نہیں لوٹتی۔
اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس برائی کے بعد نیکی کرے، جو اس کے دل کو صیقل (صاف)کردے اوراگر وہ گناہ کی بجائے نیکی کرے تو یقینادل کی روشنی بڑھے گی۔
----------------------
تیسرا سبب:یہ ہے کہ حقیقتِ مطلوبہ سے دل پھِرا ہو ا ہو اوراس کی توجہ صرف عبادات کی ترتیب کی طرف ہو ۔ اسے چاہے کہ وہ اس طرح ہوجائے جس طرح حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام نے ارشاد فرمایا جس کا ذکر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآنِ پاک میں اس طرح فرمایا:
اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ حَنِیۡفًا
ترجمۂ کنزالایمان:میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اورزمین بنائے ایک اُسی کا ہوکر۔(پ7،الانعام:79)
----------------------
چوتھا سبب:چوتھی رکاوٹ حجاب ہے، وہ اس طرح کہ اس کے دل میں شہوت باقی ہوتی ہے یا بچپن سے اپنا یا ہوا فاسد عقیدہ ہوتاہے اوراس کا اثر باقی رہتاہے۔
----------------------
پانچواں سبب: جس سمت سے مطلوب حاصل ہوتاہے اس سے ناواقف ہونا بھی ایک رکاوٹ ہے۔اُسے اس چیز پر مکمل طور پر ایمان ہونا چاہے جو اسے حاصل نہ ہو اوریہی ایمان بالغیب ہے اورجب تک اسے یہ ایمان نہ ہوتو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ان چیزوں کو طلب کرے جن کے وجود کا اسے علم ہی نہیں؟ چنانچہ غفلت رکاوٹ بن جاتی ہے۔
شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے :
لَوْلَا اَنَّ الشَّیَاطِیْنَ یَحُوْمُوْنَ عَلٰی قُلُوْبِ بَنِیْ آدَمَ لَنَظَرُوْا اِلٰی مَلَکُوْتِ السَّمَاءِ۔
ترجمہ:اگر شیاطین نے انسانوں کے دلوں کو گھیرا ہوا نہ ہوتا تو وہ آسمان کی بادشاہی کی طرف دیکھ لیتے۔
----------------------
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرۃ، الحدیث۸۶۴۸،ج۳،ص۲۶۹۔۲۷۰، بتغیرٍ)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.