You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
عاشورا ء کے روزمُلک ''رَے''میں قاضی صاحِب کے پاس ایک سائل آکرعرض گزار ہوا، میں ایک بَہُت نادارو عِیال دار آدَمی ہوں، آپ کو یومِ عاشُوراء کا واسِطہ! میرے لئے روٹی،گوشت ،اور دو دِرہم کا انتِظام فرما دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عزّت میں بَرَکت دے۔ قاضی صاحِب نے کہا، ظُہر کے بعد آنا۔فقیرظُہر کے بعد آیا تو کہا، عَصر کے بعد آنا۔ وہ عَصر کے بعد پہنچا تب بھی کچھ نہیں دیا خالی ہاتھ ہی ٹَرخا دیا۔ فقیر کا دل ٹوٹ گیا،
---------------------------------------------------------------------------------
وہ رنجیدہ رنجیدہ ایک نصرانی کے پاس پہنچا اور اُس سے کہا، آج کے مقدّس دن کے صَدقے مجھے کچھ دیدو۔ اُس نے پوچھا ،آج کون سا دن ہے؟ جواب دیا، آج یومِ عاشُوراء ہے یہ کہنے کے بعد عاشُوراء کے کچھ فضائل بیان کئے۔ اُس نے سُن کر کہا،آپ نے بَہُت ہی عظمت والے دن کا واسِطہ دیا، اپنی ضَرورت بیان کیجئے! سائل نے اُس سے بھی وُہی ضَرورت بیان کر دی۔ اُس آدَمی نے وافِرمقدار میں گیہوں، گوشت، اور بیس دِرہم پیش کرتے ہوئے کہا، یہ آپ کے اَہل و عِیال کے لئے زندگی بھر ہر ماہ اس دن کی فضیلت و
حُرمت کے صَدقے مقرَّر ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------
رات کو قاضی صاحِب نے خواب دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے، نظر اُٹھا کر دیکھ!جب نظر اُٹھائی تودو عالیشان مَحَل نظر آئے، ایک چاندی اور سونے کی اینٹوں کا اوردوسرا سُرخ یاقُوت کاتھا۔ قاضی نے پوچھا ، یہ دونوں مَحَل کس کے ہیں ؟ جواب ملا، اگر تم سائل کی ضَرورت پوری کر دیتے تویہ تمہیں ملتے، مگر چُونکہ تم نے اسے دھکّے کِھلانے کے باوُجُود بھی کچھ نہ دیا اِس لئے اب یہ دونوں مَحَل فُلاں نصرانی کے لئے ہیں۔ قاضی صاحِب بیدار ہوئے تو بَہُت پریشان تھے۔ صُبح ہوئی تو نصرانی کے پاس گئے اور اُس سے دریافْتْ کیاکہ کل تم نے کون سی''نیکی'' کی ہے؟ اُس نے پوچھا ، آپ کو کیسے علم ہوا؟
---------------------------------------------------------------------------------
قاضی صاحِب نے اپنا خواب سنایا ، اور پیشکش کی کہ مجھ سے ایک لاکھ دِرہم لے لو اور کل کی''نیکی'' مجھے بیچ دو! نصرانی نے کہا، میں رُوئے زمین کی ساری دولت لے کر بھی اِسے فَروختْ نہیں کروں گا،ربُّ العزّت جَلَّ جَلاَ لُہٗ کی رَحمت و عنایت بَہُت خوب ہے۔
لیجئے !میں مسلمان ہوتا ہوں یہ کہہ کر اُس نے پڑھا، اَشھَدُ اَنْ لَّا ۤاِلٰہَ اِلَّا للہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میں گواہی دیتا ہوں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتا ہوں محمد اُس کے بندہ خاص اوراس کے رسول ہیں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
==================
(روضُ الریاحین ص۱۵۲)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.